ترجمہ و تفسیر کیلانی — سورۃ التوبة (9) — آیت 14
قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ وَ یُخۡزِہِمۡ وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ان سے (خوب) لڑو۔ خدا ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

14۔ تم ان سے جنگ کرو۔ اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا، انہیں رسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے سینوں [13] (سے جلن مٹا کر ان) کو ٹھنڈا کر دے گا
[13] اعلان برأت کے بعد مشرکوں کے وفود کی مدینہ میں آمد اور قبول اسلام:۔
مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اس اعلان برأت کے بعد نامعلوم انہیں کیسے تلخ حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اور ان کے یہ اندیشے بے جا بھی نہ تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دو باتوں کی تلقین فرمائی ایک یہ کہ جہاد کے لیے پوری طرح مستعد رہیں، دوسرے لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ سے ڈریں اور اسی پر بھروسہ کریں۔ چنانچہ اللہ نے مشرکوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور بجائے اس کے کہ انہیں مقابلہ کی سوجھتی وہ وفود کی شکل میں مدینہ آئے اور اسلام قبول کرنے لگے اور ایسے وفود کی تعداد (70) ستر کے قریب شمار کی گئی ہے جیسا کہ سورۃ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِذَاجَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا چنانچہ جو قبائل اسلام لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے کا انتظام انہی کے سپرد فرما دیتے تھے۔
جہاد کے نتیجہ میں مسلمانوں سے پانچ وعدے:۔
آیت نمبر 14 اور 15 میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے متعلق پانچ وعدے فرمائے۔ بالفاظ دیگر جہاد کے فوائد سے تعلق رکھنے والی پانچ خوشخبریاں سنائیں جو سب کی سب پوری ہوئیں۔ پہلی یہ کہ تمہارے دشمنوں پر کوئی ارضی یا سماوی عذاب نہیں آئے گا بلکہ انہیں یہ عذاب تمہارے ہاتھوں سے دلوایا جائے گا اور اس عذاب کی ابتداء غزوہ بدر سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ دوسری یہ کہ مشرکوں کو رسوا کرے گا۔ اب اعلان برأت میں مشرکوں کی رسوائی کے جس قدر پہلو موجود ہیں اور جن کی تفصیل حاشیہ نمبر 3 میں دی گئی ہے اس سے بڑھ کر ان کی رسوائی کیا ہو سکتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس رسوائی کو برداشت کرنے کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ تیسری یہ کہ تمہیں ان پر مدد دے گا اور اس مدد کا آغاز بھی غزوہ بدر سے شروع ہو گیا تھا جس کی تفصیل پہلے دی جا چکی ہے۔ پھر اللہ کی یہ مدد ہر دم مسلمانوں کے شامل حال رہی، چوتھی یہ کہ مسلمانوں کے دل مشرکوں کے ظلم و ستم سہہ سہہ کر بہت زخمی ہو چکے تھے اور ابتداً انہیں ہاتھ تک اٹھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ صرف ان کے ظلم و ستم برداشت کرنے کی اور درگزر کرنے کی تاکید کی جاتی رہی۔ پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ انہیں ستم رسیدہ کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں ان مغرور و سرکش مشرکوں کو پٹواتا رہا تو ان مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے ٹھنڈے ہو گئے کہ دلوں میں جاگزیں رنجشیں اور غصے سب کافور ہو گئے اور پانچویں یہ کہ انہیں مغرور کافروں میں سے اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے کر تمہارا بھائی اور تمہارا غمگسار بھی بنا دے گا اور اس کی مثالیں بے شمار ہیں جو ابتدائے اسلام سے لے کر تا ہنوز جاری ہیں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل