اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ ۚ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے ہی پہلی بار تم سے ابتدا کی؟کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ تو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر (خدا) کے جلا وطن کرنے کا عزم مصمم کر لیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) ابتدا کی۔ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنے کے لائق خدا ہے بشرطیکہ ایمان رکھتے ہو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تم ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے کیوں تیار نہیں ہوتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور پیغمبر کو جلا وطن کرنے کی فکر میں ہیں اور خود ہی اول بار انہوں نے تم سے چھیڑ کی ہے، کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اللہ ہی زیاده مستحق ہے کہ تم اس کا ڈر رکھو بشرطیکہ تم ایمان والے ہو
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
13۔ کیا تم ایسے لوگوں سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور انہوں نے ہی رسول کو (مکہ سے) نکال دینے کا قصد کر رکھا تھا اور لڑائی کی ابتداء بھی انہوں نے ہی کی؟ کیا تم [12] ان سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو
[12] اعلان برأت کے بعد جہاد پر زور و ترغیب کی وجوہ:۔
اس سے پیشتر مسلمانوں کو جہاد کی متعدد بار ترغیب دی جا چکی تھی اور مسلمان کئی معرکے اور جنگیں بھی کر چکے تھے۔ اب اعلان برأت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے پچھلے مظالم یاد دلا دلا کر کافروں سے جنگ کرنے کی جو پر زور ترغیب دی ہے تو اس کی چند وجوہ تھیں مثلاً اعلان برأت کے وقت بھی مشرکین کی تعداد جزیرۃ العرب میں مسلمانوں سے زیادہ تھی اس لیے انہیں یہ خیال آ سکتا تھا کہ ایسی ذلت گوارا کرنے کے بجائے سب مل کر اسلام کا ہی نام و نشان مٹا دیں اور عرب جیسی جنگ جو اور دلیر قوم سے ایسا خطرہ کچھ بعید از عقل بھی نہ تھا۔ کیونکہ ایک تو ان کے تمام معاہدات کالعدم قرار دیئے جا رہے تھے اور دوسرے جلا وطنی کی دھمکی یا جنگ پر تیار ہو جانے کا چیلنج دے دیا گیا تھا، تیسرے کعبہ سے ان کی تولیت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ چوتھے کعبہ میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا تھا اور مکہ ہی وہ تجارتی مرکز تھا جس پر بالخصوص مقامی مشرکوں اور آس پاس کے رہنے والے مشرک قبائل کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تھا۔ پانچویں یہ کہ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے ان کے اکثر اقربا ابھی تک مشرک تھے۔ اور ان سے تعلقات برقرار رکھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ لہٰذا ان وجوہ کی بنا پر یہ عین ممکن تھا کہ سب مشرک متحد ہو کر مسلمانوں سے ایک عظیم جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے یا کم از کم عرب بھر میں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں سے خانہ جنگی شروع ہو جاتی لہٰذا ضروری تھا کہ ایسے موقع پر مسلمانوں کو جہاد کی پر زور تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے ان خطرات کو دور کیا جاتا جو اس پالیسی پر عمل درآمد کرنے کی صورت میں انہیں نظر آ رہے تھے اور انہیں ہدایت کی جاتی کہ انہیں اللہ کی مرضی پوری کرنے میں کسی بات سے خائف نہیں ہونا چاہیے۔