الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
الم۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
الم
ترجمہ محمد جوناگڑھی
الم
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
1۔ الف، لام، میم [1]
فضائل سورۃ البقرۃ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھی جائے، شیطان اس گھر سے نکل جاتا ہے۔“ [مسلم، كتاب صلوة المسافرين و قصرها، باب استحباب الصلوة النافلة فى بيته۔۔۔ الخ]
نیز آپ نے فرمایا: ”الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورۃ البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ‘ [مسلم، كتاب فضائل القرآن و مايتعلق به باب فضل قراءة القرآن و سورة البقرة]
نیز آپ نے فرمایا: ”الزھراوین (دو جگمگانے والی سورتیں یعنی البقرہ اور آل عمران) پڑھا کرو۔ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان یا پرندوں کے دو جھنڈ ہیں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے (مغفرت کے لیے) جھگڑا کریں گی (لہٰذا) سورۃ البقرہ پڑھا کرو۔ اسے حاصل کرنا برکت اور چھوڑ دینا حسرت ہے اور باطل قوتیں (جادو وغیرہ) اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ ‘ [مسلم، كتاب فضائل القرآن و مايتعلق به باب فضل قراءة القرآن و سورة البقرة]
زمانہ نزول اور شان نزول :
مدنی سورتوں میں سب سے پہلی سورت ہے۔ مکہ میں چھیاسی (86) سورتیں نازل ہوئیں اور نزولی ترتیب کے لحاظ سے اس کا نمبر 87 ہے، اگرچہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ ابتدائی مدنی دور میں نازل ہوا تاہم اس کی کچھ آیات بہت مابعد کے دور میں نازل ہوئیں مثلاً حرمت سود کی آیات جو 10ھ کے اواخر میں نازل ہوئیں۔
سورۃ بقرہ کے نزول کا پس منظر :
مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھی تاکہ تمام مسلمان دن میں پانچ دفعہ اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں اور اپنے مسائل پر غور کر سکیں۔ دوسرا اہم مسئلہ مہاجرین کی آباد کاری اور ان کے معاش کا تھا جس کے لیے آپ نے مہاجرین و انصار میں سلسلہ مواخات قائم فرمایا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ تیسرا اہم مسئلہ مدینہ کی ایک چھوٹی سی نوخیز اسلامی ریاست کے دفاع کا تھا۔ کیونکہ اب مشرکین مکہ کے علاوہ دوسرے مشرک قبائل بھی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ خود مدینہ میں یہود مسلمانوں کے اس لیے دشمن بن گئے تھے کہ آنے والا نبی سیدنا اسحٰقؑ کی اولاد کے بجائے سیدنا اسمٰعیلؑ کی اولاد سے کیوں مبعوث ہوا ہے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آباد تھے جو آپس میں پھٹے ہوئے تھے اور مدینہ کے مشرکوں کے دو مشہور قبائل اوس اور خزرج کے حلیف بن کر انہیں لڑاتے رہتے تھے۔ آپ نے سب سے پہلے یہودیوں کو ہی ایک مشترکہ مفاد کی طرف دعوت دی اور وہ مفاد تھا مدینہ کا دفاع۔ جس کی اہم دفعات یہ تھیں:
(1) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔
(2) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔
(3) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہو گی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کر لینا نا ممکن نظر آرہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نا اتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آ گیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورۃ کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔
(1) اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمان اور یہود مل کر دفاع کریں گے۔
(2) مسلمان اور یہود دونوں حصہ رسدی اخراجات برداشت کریں گے۔
(3) مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کسی طرح کے بھی جھگڑے کی صورت میں حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہو گی۔ یہود کے لیے بظاہر ایسی شرائط کو تسلیم کر لینا نا ممکن نظر آرہا تھا۔ کیونکہ وہ مدینہ کی معیشت اور سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے، مگر یہ اللہ کی خاص مہربانی اور ان کی باہمی نا اتفاقی کا نتیجہ تھا کہ یہودی قبائل باری باری اور مختلف اوقات میں اس معاہدہ کو تسلیم کرتے چلے گئے۔ اس طرح جب یہ ریاست اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی تو مسلمانوں اور کافروں کے علاوہ ایک تیسرا مفاد پرستوں کا طبقہ بھی معرض وجود میں آ گیا۔ جنہیں منافقین کا نام دیا گیا۔ اس سورۃ کی ابتدا میں انہیں تین گروہوں (مسلمان، کافر اور منافقین) کا ذکر ہوا ہے اور یہی اس کا زمانہ نزول ہے۔
حروف مقطعات کی بحث :
قرآن کی 29 سورتوں کی ابتدا میں ایسے حروف استعمال ہوئے ہیں، ان میں سے مندرجہ ذیل تین یک حرفی ہیں:
(1) سورۃ ص و القرآن 38 (2) سورۃ ق والقرآن 50 (3) سورۃ ن والقلم 68 اور 9 دو حرفی ہیں جن میں سے (4) المومن 40، حٰم تنزیل الکتاب (5) سورۃ حم السجدۃ 41 حٰم تنزیل من (6) الزخرف 43 حٰم والکتاب المبین (7) الدخان 44 حٰم والکتاب المبین (8) الجاثیہ 45 حٰم تنزیل الکتاب (9) الاحقاف 46 حٰم تنزیل الکتاب (10) طہ 20 طہ ما انزلنا (11) النمل 27 طٰس تلک آیت (12) یٰس 26 یٰس والقرآن اور 13 سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں: (13) یونس 10 الٰرٰ تلک آیات (14) ھود 11 الرٰ کتاب احکمت (15) یوسف 12 الرٰ تلک آیات 101، ابراہیم 14، الرٰ کتاب انزلنا 17، حجر 15، الم تلک آیات (18) البقرۃ 2 الم ذلک الکتاب (19) آل عمران 3 الم اللہ لا الہ (20) عنکبوت 29 الم احسب الناس (21) الروم 30 الم غلبت الروم (22) لقمان 31 الم تلک آیات (23) السجدہ 32 الم تنزیل الکتاب (24) شعراء 26 طٰسم تلک آیات (25) القصص 28 طٰسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل 2 چار حرفی ہیں: (26) الاعراف 7 المص کتاب انزلنہ (27) الرعد 13 المٰر تلک آیات اور مندرجہ ذیل 2 پانچ حرفی ہیں: (28) مریم 19 کھیٰعص ذکر رحمۃ (29) الشوریٰ 42 حٰم عسق کذلک یوحی الیک۔
مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہٰذا انہیں ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ﴾ کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔
2۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمٰن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمٰن میں بھی م اورن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جا سکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں نا ممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔
3۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص ﴿طٰهٰ﴾ اور ﴿يٰس﴾ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ [بخاري، كتاب التفسير، تفسير سورة صف]
نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی ”اے مرد!“ ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔
4۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔
5۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً: ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورۃ القلم کو 'ن' بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔
6۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
7۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کر سکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا؟
8۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا نا ممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جا سکے۔
9۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ «والله اعلم بالصواب»
10۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کر دیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔
رہی یہ بات کہ صحابہ کرامؓ کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرامؓ نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی استفسار نہیں کیا لہٰذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرامؓ ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرامؓ کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہٰذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔
(1) سورۃ ص و القرآن 38 (2) سورۃ ق والقرآن 50 (3) سورۃ ن والقلم 68 اور 9 دو حرفی ہیں جن میں سے (4) المومن 40، حٰم تنزیل الکتاب (5) سورۃ حم السجدۃ 41 حٰم تنزیل من (6) الزخرف 43 حٰم والکتاب المبین (7) الدخان 44 حٰم والکتاب المبین (8) الجاثیہ 45 حٰم تنزیل الکتاب (9) الاحقاف 46 حٰم تنزیل الکتاب (10) طہ 20 طہ ما انزلنا (11) النمل 27 طٰس تلک آیت (12) یٰس 26 یٰس والقرآن اور 13 سہ حرفی ہیں جو یہ ہیں: (13) یونس 10 الٰرٰ تلک آیات (14) ھود 11 الرٰ کتاب احکمت (15) یوسف 12 الرٰ تلک آیات 101، ابراہیم 14، الرٰ کتاب انزلنا 17، حجر 15، الم تلک آیات (18) البقرۃ 2 الم ذلک الکتاب (19) آل عمران 3 الم اللہ لا الہ (20) عنکبوت 29 الم احسب الناس (21) الروم 30 الم غلبت الروم (22) لقمان 31 الم تلک آیات (23) السجدہ 32 الم تنزیل الکتاب (24) شعراء 26 طٰسم تلک آیات (25) القصص 28 طٰسم تلک آیات اور مندرجہ ذیل 2 چار حرفی ہیں: (26) الاعراف 7 المص کتاب انزلنہ (27) الرعد 13 المٰر تلک آیات اور مندرجہ ذیل 2 پانچ حرفی ہیں: (28) مریم 19 کھیٰعص ذکر رحمۃ (29) الشوریٰ 42 حٰم عسق کذلک یوحی الیک۔
مجموعہ احادیث میں سے کوئی بھی ایسی متصل اور صحیح حدیث مذکور نہیں جو ان حروف کے معانی و مفہوم پر روشنی ڈالتی ہو۔ لہٰذا انہیں ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ﴾ کے زمرہ میں شامل کرنا ہی سب سے انسب ہے۔ ان کے متعلق جو اقوال ملتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے نام ہیں۔ مگر احادیث صحیحہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں اور جو نام ان میں مذکور ہیں ان میں ان حروف کا ذکر نہیں۔
2۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ابتدائی حصے ہیں جن کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کا کوئی نہ کوئی نام بن جاتا ہے۔ جیسے الر اور حم اور ن کو ملانے سے الرحمٰن بن جاتا ہے۔ یہ توجیہ بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ الرحمٰن میں بھی م اورن کے درمیان ایک الف ہے جس کو لکھتے وقت تو کھڑی زبر سے کام چلا کر حذف کیا جا سکتا ہے مگر تلفظ میں تو حذف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں یہ ایک لفظ تو بن گیا اب اگر مزید کوشش کی جائے تو شاید ایک آدھ لفظ اور بن جائے، سارے حروف کو اس انداز سے ترکیب دینا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے نام بن جائیں نا ممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔
3۔ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہیں، اور اس سلسلہ میں بالخصوص ﴿طٰهٰ﴾ اور ﴿يٰس﴾ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جو اپنے نام بتائے ہیں وہ یہ ہیں۔ محمد، احمد، ماحی (کفر کو مٹانے والا) حاشر اور عاقب۔ [بخاري، كتاب التفسير، تفسير سورة صف]
نیز بخاری میں مذکور ہے کہ حبشی زبان میں طہ کے معنی ”اے مرد!“ ہیں یا ایسا آدمی جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے، وہ رک رک کر یا اٹک اٹک کر بات کرے اور یہ بات اس کی زبان میں گرہ کی وجہ سے ہو اور یہ تو واضح ہے کہ رسول نعوذ باللہ ایسے نہیں تھے۔
4۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف قرآن کے نام ہیں، جبکہ قرآن نے اپنے نام خود ہی بتا دیئے ہیں جو یہ ہیں۔ الکتاب، کتاب مبین، قرآن، قرآن مجید، قرآن کریم، قرآن عظیم، فرقان، ذکر، تذکرہ، حدیث اور احسن الحدیث ان ناموں کی موجودگی میں ایسے ناموں کی ضرورت ہی کب رہ جاتی ہے، جن کی سمجھ ہی نہ آتی ہو۔
5۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ یہ قول کسی حد تک درست ہے۔ مثلاً: ص، ق، طہ، یس سورتوں کے نام بھی ہیں۔ سورۃ القلم کو 'ن' بھی کہا گیا ہے۔ حوامیم (جمع حم) کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔ تاہم ان میں سے بھی بیشتر سورتیں دوسرے ناموں سے ہی مشہور ہوئیں۔ جن کا ان سورتوں میں امتیازاً ذکر آیا ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ رہے کہ کئی سورتوں کے دو دو نام بھی مشہور ہیں۔
6۔ ایک قول یہ ہے کہ الفاظ میں پورے نظام رسالت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً الم میں الف سے مراد اللہ، ل سے مراد جبریل اور م سے مراد محمد ہیں۔ یہ بھی ایسی توجیہ ہے جسے تمام حروف مقطعات پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔
7۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف کفار کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں کہ دیکھ لو کہ انہی مفرد حروف سے تم اپنے کلام کو ترکیب دیتے ہو، پھر تمہارے اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں اتنا فرق ہے کہ تم سب مل کر بھی قرآن کے مقابلہ میں ایک سورت بھی اس جیسی پیش نہیں کر سکتے۔ یہ توجیہ اس لحاظ سے درست نہیں کہ جب ان الفاظ کا ٹھیک مفہوم متعین ہی نہیں تو پھر چیلنج کیسا؟
8۔ ایک قول یہ ہے کہ بحساب جمل ان حروف کے عدد نکال کر جمع کرنے سے اس امت کی عمر یا قیامت کی آمد کی مدت کا اشارہ پایا جاتا ہے۔ یہ توجیہ انتہائی غیر معقول ہے۔ ایک تو جمل کے حساب کی شرعاً کچھ حیثیت نہیں۔ دوسرا انسان کے پاس کوئی ایسا علم یا ایسا ذریعہ موجود ہونا نا ممکنات سے ہے۔ جس سے قیامت کی آمد کے مخصوص وقت کا حساب لگایا جا سکے۔
9۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف طویل جملوں یا ناموں کے ابتدائی حروف یا مخففات ہیں اور ان کا مفہوم صرف رسول ہی جانتے تھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ گویا یہ عبد اور معبود کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہیں۔ یہ ایسی توجیہ ہے جس کے متعلق ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ «والله اعلم بالصواب»
10۔ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے سر بستہ راز ہیں جو اگرچہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں تاہم ان پر مطلع ہونا انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ توجیہ ہے جس کی طرف ہم نے ابتدا میں اشارہ کر دیا ہے اور یہی توجیہ سب سے انسب معلوم ہوتی ہے۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بعض ایسی صفات مذکور ہیں جن کا سمجھنا انسانی عقل کی بساط سے باہر ہے اور ان پر کسی عمل کی بنیاد بھی نہیں اٹھتی۔
رہی یہ بات کہ صحابہ کرامؓ کو جس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے اور چونکہ صحابہ کرامؓ نے ان حروف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی استفسار نہیں کیا لہٰذا معلوم ہوا کہ عربی زبان میں حروف مقطعات کا رواج عام تھا اور صحابہ کرامؓ ان کے معانی بھی خوب جانتے تھے۔ پھر عربی ادب سے کچھ شاذ قسم کی مثالیں بھی پیش کی جاتی ہیں تو یہ خیال درست نہیں جب قرآنی آیات کی پوری تشریحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرامؓ کے ذریعہ ہم تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہیں تو پھر آخر ان حروف کی تشریح و تفسیر ہی ہم تک کیوں نہیں پہنچی۔ بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ خوب سمجھتے تھے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے ایسے راز یا صفات ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی جان نہیں سکتا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کسی صحابی نے آپ سے یہ پوچھا ہو کہ اللہ تعالیٰ جب ہم میں سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر وہ عرش پر کیسے متمکن ہے؟ یا جب وہ بوقت سحر آسمان سے دنیا پر نزول فرماتا ہے تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کے کیا معنی؟ ہرگز نہیں۔ بالکل یہی صورت ان حروف مقطعات کی بھی ہے۔ لہٰذا ان کے معانی و مفہوم نہ جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی ان کے متعلق استفسار نہیں کیا تھا، کیونکہ یہ حروف متشابہات سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اس بات پر ایمان لائیں کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں، نہ یہ مہمل ہیں، نہ زائد ہیں۔ بلکہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہیں۔ البتہ ان کے معانی و مفہوم جاننے کے نہ ہم مکلف ہیں اور نہ ہی ان پر کسی شرعی مسئلے کا دار و مدار ہے۔