وَ عَلَی اللّٰہِ قَصۡدُ السَّبِیۡلِ وَ مِنۡہَا جَآئِرٌ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ لَہَدٰىکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿٪۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور سیدھا راستہ اللہ ہی پر (جا پہنچتا) ہے اور ان میں سے کچھ (راستے) ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو ضرور تم سب کو ہدایت دے دیتا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور سیدھا رستہ تو خدا تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں (وہ اس تک نہیں پہنچتے) اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے رستے پر چلا دیتا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اللہ پر سیدھی راه کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وه چاہتا تو تم سب کو راه راست پر لگا دیتا
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
9۔ اور سیدھی راہ بتانا اللہ کے ذمہ [9] ہے جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت [10] دے دیتا
[9] وحی کے بغیر ہدایت انسانی نا ممکن ہے:۔
جس طرح تمہاری جسمانی زندگی کی بقا کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ضرورت کی سب چیزیں پیدا کی ہیں اسی طرح تمہاری روحانی زندگی کی بقا کے اسباب مہیا کرنا بھی اسی کے ذمہ ہے۔ محض عقل سے یہ ضرورت پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ عقل کی سوچ و فکر کا میدان انتہائی محدود ہے لہٰذا اس ذمہ داری کو بھی اللہ تعالیٰ نے عہد الست لے کر پیغمبر اور کتابیں بھیج کر پورا کر دیا یہی وہ راہ ہے جو سیدھی ہے اور صرف ایک ہے اور عقل جن راہوں پر چلتی ہے وہ ٹیڑھی بھی ہیں اور لاتعداد بھی کیونکہ نہ ہر انسان میں عقل ایک جیسی ہوتی ہے اور نہ ہر انسان کی عقل کا صحت کے لیے قائم کردہ معیار ایک جیسا ہوتا ہے۔ عقلوں کے اسی فرق کی بنا پر بے شمار راہیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ عقل کی مثال در اصل آنکھ کی سی ہے جسے دیکھنے کے لیے کسی خارجی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجی روشنی کے بغیر آنکھ صحیح کام نہیں کرتی۔ اور یہ خارجی روشنی وحی الٰہی ہے۔ روشنی میں انسان جو کچھ دیکھتا ہے اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے مگر اندھیرے میں چلنے والا ٹامک ٹوئیاں ہی مارتا ہے کبھی کسی راہ پر جاپڑتا ہے اور کبھی کسی پر پھر اس کے کسی گڑھے یا کھڈ میں گر پڑنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، ٹھڈے لگنے کا بھی اور کسی سخت اور اونچی چیز سے ٹکرانے کا اور چوٹ لگ جانے کا بھی۔ لہٰذا اس خارجی روشنی کی انسان کو شدید ضرورت تھی تاکہ وہ بلا تکلف سیدھی راہ پر گامزن رہ سکے اور انسان کی یہ ضرورت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر پوری کر دی ہے اسی مضمون کو اللہ نے کئی مقامات پر ان الفاظ میں بیان فرما دیا ہے۔ کیا بینا اور نابینا برابر ہو سکتے ہیں؟ اور انسانیت ہمیشہ تجربوں اور ناکامیوں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خود ہی انسان کو سیدھی راہ بتا کر اس پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔
[10] جبری ہدایت دینا اللہ کا دستور نہیں:۔
اس لیے کہ جبری ہدایت سے انسان کی تخلیق کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوسری ہر مخلوق سے زیادہ عقل و تمیز بخشی، قوت ارادہ اور تصرف کا اختیار بھی دیا۔ ہدایت اور گمراہی کے راستے بھی واضح طور پر سمجھا دیئے کہ وہ یہ دیکھے کہ اب کون شخص کون سی راہ اختیار کرتا ہے اور یہی مشیت الٰہی ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ سب کو خود ہی ہدایت کی راہ پر لگا دیتا۔