وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے، پیدا فرمایا ہے
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
26۔ ہم نے انسان کو گلے سڑے گارے سے خشک شدہ ٹن سے [17] بجنے والی مٹی سے پیدا کیا
[17] آدم کی پیدائش مٹی سے ہوئی:۔
مٹی کے لیے عربی زبان میں عام لفظ تراب ہے جو ہر طرح کی مٹی پر بولا جا سکتا ہے۔ جیسے سیدنا آدمؑ کے متعلق ایک مقام پر فرمایا: ﴿خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ﴾ [3 تا 5] تاہم تراب کا لفظ عموماً خشک مٹی کے لیے بولا جاتا ہے اور انسان کے پتلے کی ساخت میں مٹی کی جن اقسام کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ طین یعنی گیلی مٹی یا وہ خشک مٹی جس میں پانی ملایا گیا ہو طین لازب چپک دار گیلی مٹی (چکنی مٹی) اس کے بعد اسی مٹی کو حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ کی شکل دی گئی یعنی ایسی مٹی یا گارا جو گل سڑ کر سیاہ رنگ کی ہو گئی ہو خمیر اٹھ رہا ہو اور بو پیدا ہو گئی ہو۔ ایسی ہی مٹی سے آدمؑ کا پتلا بنایا گیا۔ پھر اسے حرارت یا آگ میں اس قدر تپایا گیا کہ وہ کھنکھنانے سے کھن کھن کی آواز پیدا کرتا ایسی مٹی کو صَلْصَالٍ اور صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ کا نام دیا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمؑ کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہی تھا۔