اقۡتُلُوۡا یُوۡسُفَ اَوِ اطۡرَحُوۡہُ اَرۡضًا یَّخۡلُ لَکُمۡ وَجۡہُ اَبِیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ قَوۡمًا صٰلِحِیۡنَ ﴿۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
یوسف کو قتل کر دو، یا اسے کسی زمین میں پھینک دو، تمھارے باپ کا چہرہ تمھارے لیے اکیلا رہ جائے گا اور اس کے بعد تم نیک لوگ بن جانا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالو یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی۔ اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یوسف کو تو مار ہی ڈالو یا اسے کسی (نامعلوم) جگہ پھینک دو کہ تمہارے والد کا رخ صرف تمہاری طرف ہی ہو جائے۔ اس کے بعد تم نیک ہو جانا
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
9۔ (لہٰذا) یا تو یوسف کو مار ڈالو یا اسے کہیں دور پھینک دو (اس طرح) تمہارا باپ تمہاری ہی طرف متوجہ رہے گا پھر اس کے بعد تم نیک لوگ [8] بن جانا“
[8] صالحین کے دو مفہوم:۔
باپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی ترکیب انہوں نے یہ سوچی کہ کسی طرح یوسف کو غائب ہی کر دیا جائے یا تو اسے مار ہی ڈالا جائے۔ یا پھر کسی دور دراز مقام میں اسے پہنچا دیا جائے تاکہ وہاں سے وہ واپس نہ آسکے۔ اس طرح ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ اب چونکہ وہ ایک جلیل القدر نبی کی اولاد بھی تھے۔ اس لیے ایسے فعل کے ارتکاب پر ان کا ضمیر انھیں ملامت بھی کر رہا تھا۔ اس کا حل یہ سوچا گیا کہ پہلے اپنی خواہش نفس تو پوری کر لیں۔ بعد میں تو بہ کر کے نیک بن جائیں گے۔ یہی وہ شیطانی چالیں تھیں جن کے متعلق یعقوبؑ کو پہلے سے ہی اندیشہ تھا۔ ﴿وَتَكُوْنُوْا مِنْ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ﴾ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب تم لوگ یوسف کو ٹھکانے لگا دو گے تو اس کے بعد از خود ہی تم لوگ اپنے باپ کو اچھے لگنے لگو گے۔