ترجمہ و تفسیر کیلانی — سورۃ يوسف (12) — آیت 3
نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ ٭ۖ وَ اِنۡ کُنۡتَ مِنۡ قَبۡلِہٖ لَمِنَ الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ہم تجھے سب سے اچھا بیان سناتے ہیں، اس واسطے سے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن وحی کیا ہے اور بے شک تو اس سے پہلے یقینا بے خبروں سے تھا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے پیغمبر) ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں اور تم اس سے پہلے بےخبر تھے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعے نازل کیا اور یقیناً آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

3۔ (اے نبی)! ہم اس قرآن کو آپ کی طرف وحی کر کے ایک بڑا اچھا قصہ آپ سے بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ اس سے پیشتر آپ (اس سے) بے خبر [2] تھے
[2] قریش مکہ کا یہود کے کہنے پر آپﷺ سے سوال، بنی اسرائیل مصر کیسے پہنچ گئے؟
اس سورۃ کا شان نزول یہ ہے کہ کفار مکہ نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتلاؤ جو ہم اس پیغمبر سے پوچھیں اور اس سوال کا وہ جواب نہ دے سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس نبی کا سب بھرم کھل جائے گا۔ وہ جواب تو نہ دے سکے گا یا پھر مہلت مانگے گا اور دریں اثنا وہ ادھر ادھر کی کچھ معلومات مہیا کرے گا جس کا علم ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔ یہود یہ تو جانتے تھے کہ یہ نبی امی ہے لہٰذا انہوں نے سوچ سمجھ کر ایک تاریخی قسم کا سوال کفار مکہ کو بتایا جو یہ تھا کہ ”سیدنا ابراہیمؑ، سیدنا اسحاقؑ اور سیدنا یعقوب (اسرائیل) سب کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا۔ پھر بنی اسرائیل مصر میں کیسے جا پہنچے جنہیں اہل مصر کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سیدنا موسیٰؑ مبعوث ہوئے تھے؟“ جب کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تو اسی وقت یہ سورۃ پوری کی پوری نازل ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے مسلسل یہ سورۃ ادا ہوتی گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے اس وقت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقف تھے اور نہ اہل مکہ اور اس جواب میں سیدنا یوسفؑ کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آ گئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی پائے جاتے تھے جو کفار مکہ اور برادران یوسف کے درمیان مشترک پائے جانے والے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ گویا یہ پوری سورۃ قریش مکہ کے حق میں ایک طرح کی پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ سب نشان عبرت پورے ہو کر رہے۔ مثلاً:
اس سورۃ کا شان نزول اور آپ کی نبوت کا ثبوت:۔
پہلی عبرت کی بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کر یہ ثابت کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فی الواقع اللہ کے نبی ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات کا کوئی ذریعہ ممکن نہ تھا، لیکن پھر بھی یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے اور اپنی ہٹ پر قائم رہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح برادران یوسف نے اپنے بھائی کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ اس لیے کیا کہ کھٹکتے خار کو راستہ سے ہٹا کر اپنی راہ صاف کی جائے۔ بعینہ اسی غرض کے تحت کفار مکہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا تھا۔
قصہ یوسف اور قریش میں مماثلت کی وجوہ:۔
تیسرے یہ کہ جو تدابیر برادران یوسف نے یوسفؑ کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی تدابیر کو اللہ نے سیدنا یوسفؑ کے عروج اور سربلندی کا ذریعہ بنا دیا۔ اسی طرح بعینہ جو تدابیر کفار مکہ نے پیغمبر اسلام اور اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی سے اسلام کا عروج اور سربلندی حاصل ہوئی اور یہی تدابیر کفار مکہ اور کفر کی موت کا سبب بن گئیں۔ چوتھے یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسفؑ کو حکومت عطا فرمائی اور ان کے بھائی نادم و شرمسار ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں ﴿لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ کر معاف فرما دیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد اپنے ان جانی دشمن بھائیوں کو بالکل یہی الفاظ کہہ کر معاف کر دیا۔ مزید یہ کہ انھیں جنگی قیدی بنانے کے بجائے ﴿اَنْتُمُ الطُّلَقَاء کہہ کر انھیں یہ محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ مغلوب و مفتوح قوم ہیں۔ اور اس تفصیل سے جو نہایت اہم سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ سربلند کرنا چاہے اس کے حاسد اور مخالف اسے مٹانے کی لاکھ کوششیں کریں، کارگر نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ بمصداق ”عدو شرے بر انگیزد کہ خیر مادراں باشد“ اللہ انھیں تدبیروں کا رخ یوں پھیر دیتا ہے کہ وہی تدبیریں اس شخص کی سربلندی کا ذریعہ بن جایا کرتی ہیں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل