قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مَا لَکَ لَا تَاۡمَنَّا عَلٰی یُوۡسُفَ وَ اِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
انھوں نے کہا اے ہمارے باپ! تجھے کیا ہے کہ تو یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتا، حالانکہ بے شک ہم یقینا اس کے خیرخواہ ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(یہ مشورہ کر کے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ اباجان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
انہوں نے کہا ابا! آخر آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے ہم تو اس کے خیر خواه ہیں
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
11۔ (اس تجویز کے بعد) وہ اپنے باپ سے کہنے لگے: کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے [10] میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں؟
[10] بھائیوں کا باپ سے یوسف کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ:۔
اب سوال یہ تھا کہ وہ یوسفؑ کو اپنے ساتھ کیسے لے جائیں تاکہ اپنی تجویز پر عمل کر سکیں۔ سیدنا یعقوبؑ کو تو پہلے ہی معلوم تھا کہ یوسفؑ کے حق میں ان کے بھائیوں کے دل صاف نہیں ہیں۔ اس غرض کے لیے پھر انھیں جھوٹ اور مکاری سے کام لینا پڑا۔ اپنے باپ سے عرض کیا کہ آخر ہم اس کے بھائی ہی ہیں۔ آپ اسے ہمارے ساتھ آنے جانے میں تامل کیوں کرتے ہیں ہم پر اعتماد کیجئے۔ ہم کوئی اس کے دشمن تو نہیں اور بہتر یہ ہے کہ کل جب ہم اپنے ریوڑ چرانے کے لیے ریوڑ کو جنگل کی طرف لے جائیں۔ تو آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ وہاں اس کا دل بہلے گا۔ جنگل کے پھل وغیرہ کھائے گا۔ وہ کچھ ہم سے مانوس ہو گا۔ ہم اس سے مانوس ہوں گے اور اس کی پوری طرح حفاظت بھی کریں گے۔