وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میںکہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ خدا کی عبادت کریں (اور) یکسو ہو کراورنماز پڑھیں اور زکوٰة دیں اور یہی سچا دین ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز کو قائم رکھیں اور زکوٰة دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 5) {وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ …: ” الْقَيِّمَةِ “ ”قَامَ يَقُوْمُ“} سے {”فَيْعِلَةٌ“} کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے، جس میں تاء مبالغے کے لیے ہے، نہایت مضبوط، سیدھی جس میں کوئی کجی نہیں: {”أَيْ ذٰلِكَ دِيْنُ الْمِلَّةِ الْقَيِّمَةِ“} ”یعنی یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔“ {” حُنَفَآءَ “ ”حَنِيْفٌ“} کی جمع ہے جو {”حَنَفَ يَحْنِفُ حَنْفًا“} (ض) (حاء کے ساتھ) سے {”فَعِيْلٌ“} بمعنی اسم فاعل ہے،اس کا لفظی معنی ”ایک طرف مائل ہونا“ ہے۔ اس کا اکثر استعمال ”تمام راستوں سے ہٹ کر سیدھے راستے کی طرف آنے“ کے معنی میں ہوتا ہے، جب کہ {”جَنَفَ“} (جیم کے ساتھ) کا مطلب ”سیدھے راستے سے ہٹ کر ادھر ادھر ہو جانا“ ہوتا ہے۔ اس آیت میں دین کا خلاصہ بیان فرما دیا کہ پہلی امتیں ہوں یا یہ امت، سب میں ایک ہی حکم ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کریں، جو ہر قسم کے شرک اور ریا سے پاک اور خالص اللہ کے لیے ہو اور باطل پر چلنے والے تمام گروہوں سے ہٹ کر ایک اللہ کی طرف یک سو ہو جائیں، جس طرح ابراہیم علیہ السلام ہو گئے تھے اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔ جب اس امت میں بھی وہی پہلا ہی حکم ہے اور پہلی امتوں کا اور اس امت کا دین قیم ایک ہی ہے، تو انھیں ماننے سے انکار کیوں ہے؟