یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَنَاجَیۡتُمۡ فَلَا تَتَنَاجَوۡا بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ وَ تَنَاجَوۡا بِالۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم آپس میں سرگوشی کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی نہ کرو اور نیکی اور تقویٰ کی سرگوشی کرو اور اللہ سے ڈرو جس کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور خدا سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے ایمان والو! تم جب سرگوشی کرو تو یہ سرگوشیاں گناه اور ﻇلم (زیادتی) اور نافرمانیٴ پیغمبر کی نہ ہوں، بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کیے جاؤ گے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 9){ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَيْتُمْ …:} جیسا کہ آیت (۷) کے فوائد میں گزرا کہ {”نَجْوٰی“} کا لفظ عموماً برے مقاصد کے لیے سرگوشیوں پر استعمال ہوتا ہے جو حرام ہیں، لیکن بعض اوقات{ ”نَجْوٰي“} (خفیہ مشورہ) اچھے مقاصد کے لیے بھی ہو سکتا ہے، اس کی اجازت ہے بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ باعث اجر ہے۔ (دیکھیے نساء: ۱۱۴) اس آیت میں ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو گناہ، زیادتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی والی سرگوشیوں اور خفیہ مجلسوں سے منع فرمایا، کیونکہ یہ ایمان کے دعویٰ کے خلاف ہے اور نیکی اور تقویٰ والی سرگوشیوں کی اجازت بلکہ نصیحت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرگوشی کی ہر ایسی صورت سے منع فرمایا جس سے کسی مسلمان کی دل آزاری ہوتی ہو۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِذَا كُنْتُمْ ثَلاَثَةً فَلاَ يَتَنَاجٰی رَجُلاَنِ دُوْنَ الْآخَرِ حَتّٰی تَخْتَلِطُوْا بِالنَّاسِ، أَجْلَ أَنْ يُّحْزِنَهُ] [بخاري، الاستئذان، باب إذا کانوا أکثر من ثلاثۃ فلا بأس بالمسارّۃ المناجاۃ: ۶۲۹۰۔ مسلم: ۲۱۸۴] ”جب تم تین آدمی ہو تو دو آدمی تیسرے کے بغیر آپس میں سرگوشی نہ کریں، یہاں تک کہ تم دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جاؤ، کیونکہ یہ چیز اسے غمگین کرے گی۔“ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر تین سے زیادہ آدمی ہوں تو کوئی دو آدمی آپس میں سرگوشی کر سکتے ہیں۔ البتہ چار یا پانچ یا زیادہ آدمی ایک شخص کو اکیلے چھوڑ کر الگ سرگوشی کریں تو اس اکیلے کا غمگین اور پریشان ہونا تو لازمی بات ہے، اس لیے اس حدیث کے مطابق وہ بھی ناجائز ہے۔ تین آدمیوں میں سے دو اگر ایسی زبان میں بات شروع کر دیں جو تیسرا نہیں جانتا تو اس حدیث کے مطابق وہ بھی جائز نہیں۔ ہاں، اگر دو آدمی تیسرے سے اجازت لے کر آپس میں سرگوشی کر لیں تو یہ جائز ہے، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِذَا كُنْتُمْ ثَلاَثَةً فَلاَ يَتَنَاجَ اثْنَانِ دُوْنَ الثَّالِثِ إِلاَّ بِإِذْنِهِ فَإِنَّ ذٰلِكَ يُحْزِنُهُ] [مسند أحمد: 146/2، ح: ۶۳۳۸۔ مصنف عبد الرزاق، ح: ۱۹۸۰۶، وسندہ صحیح] ”جب تم تین آدمی ہو تو دو آدمی تیسرے کے بغیر سرگوشی نہ کریں، مگر اس کی اجازت کے ساتھ، کیونکہ یہ چیز اسے غمگین کرے گی۔“