وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ رِّزۡقٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ اٰیٰتٌ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور رات اور دن کے بدلنے میں اور اس رزق میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کر دیا اور ہواؤں کے پھیرنے میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں اور وہ جو خدا نے آسمان سے (ذریعہٴ) رزق نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کیا اس میں اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور رات دن کے بدلنے میں اور جو کچھ روزی اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل فرما کر زمین کو اس کی موت کے بعد زنده کر دیتا ہے، (اس میں) اور ہواؤں کے بدلنے میں بھی ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 5) ➊ { وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ:} اس میں دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن کا آنا بھی شامل ہے، رات کا دن سے لمبا ہونا اور دن کا رات سے لمبا ہونا بھی اور سارا سال ہر روز طلوع و غروب کی جگہوں کا مختلف ہونا بھی۔
➋ {وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ رِّزْقٍ …:} یہاں آسمان سے نازل کی جانے والی چیز کے لیے {” مَاءٌ “} (پانی) کے بجائے {” رِزْقٍ “} کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ آسمان سے بارش کے علاوہ بھی بہت کچھ اترتا ہے جس سے تمام جانداروں کے رزق کا اہتمام ہوتا ہے۔ مثلاً سورج اور چاند کی کرنیں اور روشنی، ہوائیں اور بہت سی چیزیں جو نظر نہیں آتیں مگر موجود ہیں اور اوپر کی جانب سے نازل ہوتی ہیں۔
➌ { وَ تَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ:} ہواؤں کی تقسیم بھی کئی طرح کی ہے، مثلاً مشرقی، مغربی، جنوبی یاشمالی یا ان کے درمیان کی ہوائیں، ٹھنڈی یا گرم یا معتدل ہوائیں، بار آور یا عقیم ہوائیں اور فائدہ پہنچانے والی یا نقصان پہنچانے والی ہوائیں وغیرہ۔ یاد رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی جن نشانیوں کا ذکر ہوا ہے سورۂ بقرہ (۱۶۴) میں یہی نشانیاں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔
➍ { اٰيٰتٌ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ:} مفسر قالی نے فرمایا: ”منصف لوگ جب آسمان و زمین کو دیکھیں گے تو ایمان لے آئیں گے کہ یقینا انھیں ایک بنانے والا ہے، اس لیے وہاں فرمایا: «لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ» [الجاثیۃ: ۳] ”ایمان والوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔“ پھر جب اپنی پیدائش اور دوسرے جانداروں میں غور کریں گے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو گا اور وہ یقین کر لیں گے، اس لیے وہاں فرمایا: «اٰيٰتٌ لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ» [الجاثیۃ: ۴] ”ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو یقین رکھتے ہیں۔“ پھر دوسری تمام مخلوقات پر غور و فکر کریں گے تو بہت اچھی طرح سمجھ جائیں گے، اس لیے یہاں فرمایا: «اٰيٰتٌ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ» ”ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔“ (نظم الدرر)
➋ {وَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ رِّزْقٍ …:} یہاں آسمان سے نازل کی جانے والی چیز کے لیے {” مَاءٌ “} (پانی) کے بجائے {” رِزْقٍ “} کا لفظ استعمال فرمایا، کیونکہ آسمان سے بارش کے علاوہ بھی بہت کچھ اترتا ہے جس سے تمام جانداروں کے رزق کا اہتمام ہوتا ہے۔ مثلاً سورج اور چاند کی کرنیں اور روشنی، ہوائیں اور بہت سی چیزیں جو نظر نہیں آتیں مگر موجود ہیں اور اوپر کی جانب سے نازل ہوتی ہیں۔
➌ { وَ تَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ:} ہواؤں کی تقسیم بھی کئی طرح کی ہے، مثلاً مشرقی، مغربی، جنوبی یاشمالی یا ان کے درمیان کی ہوائیں، ٹھنڈی یا گرم یا معتدل ہوائیں، بار آور یا عقیم ہوائیں اور فائدہ پہنچانے والی یا نقصان پہنچانے والی ہوائیں وغیرہ۔ یاد رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی جن نشانیوں کا ذکر ہوا ہے سورۂ بقرہ (۱۶۴) میں یہی نشانیاں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔
➍ { اٰيٰتٌ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ:} مفسر قالی نے فرمایا: ”منصف لوگ جب آسمان و زمین کو دیکھیں گے تو ایمان لے آئیں گے کہ یقینا انھیں ایک بنانے والا ہے، اس لیے وہاں فرمایا: «لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ» [الجاثیۃ: ۳] ”ایمان والوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔“ پھر جب اپنی پیدائش اور دوسرے جانداروں میں غور کریں گے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو گا اور وہ یقین کر لیں گے، اس لیے وہاں فرمایا: «اٰيٰتٌ لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ» [الجاثیۃ: ۴] ”ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو یقین رکھتے ہیں۔“ پھر دوسری تمام مخلوقات پر غور و فکر کریں گے تو بہت اچھی طرح سمجھ جائیں گے، اس لیے یہاں فرمایا: «اٰيٰتٌ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ» ”ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔“ (نظم الدرر)