قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ۚ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَا لَہُمۡ فِیۡہِمَا مِنۡ شِرۡکٍ وَّ مَا لَہٗ مِنۡہُمۡ مِّنۡ ظَہِیۡرٍ ﴿۲۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہہ دے پکارو ان کو جنھیں تم نے اللہ کے سوا گمان کر رکھا ہے، وہ نہ آسمانوں میں ذرہ برابر کے مالک ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کہہ دو کہ جن کو تم خدا کے سوا (معبود) خیال کرتے ہو ان کو بلاؤ۔ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کہہ دیجیئے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمہیں گمان ہے (سب) کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمینوں میں سے ایک ذره کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 22) ➊ { قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ …:} سورت کی ابتدا اس بات سے ہوئی کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور دنیا اور آخرت میں حمد کا سزا وار بھی وہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذکر فرمایا کہ کفار آخرت کا انکار کرتے ہیں، جب کہ وہ ضرور آئے گی۔ اس کے بعد آخرت پر ایمان رکھنے والوں اور اس کے منکروں کی اور ان کے اچھے اور برے انجام کی مثال کے طور پر داؤد و سلیمان علیھما السلام کا اور قومِ سبا کا ذکر فرمایا۔ آخرت کے بیان کے بعد یہاں سے پھر اسی توحید کا بیان شروع ہوتا ہے جس سے سورت کا آغاز ہوا تھا۔
➋ { لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ …:} یعنی اللہ تعالیٰ تو جسے چاہتا ہے داؤد و سلیمان علیھما السلام کی طرح نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قومِ سبا کی طرح برباد کر دیتا ہے، کیونکہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، اب تم اپنے بناوٹی معبودوں کو پکارو، بھلا وہ تمھاری کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں، کیونکہ مدد وہ تب کریں جب ان کے پاس کوئی چیز ہو، وہ تو آسمان و زمین میں موجود ایک ذرے کے مالک بھی نہیں۔ دیکھیے سورۂ فاطر (۱۳)، مومنون (۸۸، ۸۹)، نحل (۷۳)، یونس (۱۰۶) اور سورۂ جنّ (۲۱، ۲۲)۔
➌ {وَ مَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ:} یہ اس بات کا رد ہے کہ چلیے پورے مالک نہ سہی، ملکیت و اختیار میں ان کا کچھ حصہ ضرور ہے۔ دیکھیے سورۂ فاطر (۴۰) اور سورۂ احقاف (۴)۔
➍ { وَ مَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ:} نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے جس سے کبھی اللہ تعالیٰ نے مدد لی ہو، یا اب مدد لیتا ہو۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۱۱) اور سورۂ کہف (۵۱)۔
➋ { لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ …:} یعنی اللہ تعالیٰ تو جسے چاہتا ہے داؤد و سلیمان علیھما السلام کی طرح نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قومِ سبا کی طرح برباد کر دیتا ہے، کیونکہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، اب تم اپنے بناوٹی معبودوں کو پکارو، بھلا وہ تمھاری کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں، کیونکہ مدد وہ تب کریں جب ان کے پاس کوئی چیز ہو، وہ تو آسمان و زمین میں موجود ایک ذرے کے مالک بھی نہیں۔ دیکھیے سورۂ فاطر (۱۳)، مومنون (۸۸، ۸۹)، نحل (۷۳)، یونس (۱۰۶) اور سورۂ جنّ (۲۱، ۲۲)۔
➌ {وَ مَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ:} یہ اس بات کا رد ہے کہ چلیے پورے مالک نہ سہی، ملکیت و اختیار میں ان کا کچھ حصہ ضرور ہے۔ دیکھیے سورۂ فاطر (۴۰) اور سورۂ احقاف (۴)۔
➍ { وَ مَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ:} نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے جس سے کبھی اللہ تعالیٰ نے مدد لی ہو، یا اب مدد لیتا ہو۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۱۱) اور سورۂ کہف (۵۱)۔