اَوَ لَمۡ یَہۡدِ لَہُمۡ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ یَمۡشُوۡنَ فِیۡ مَسٰکِنِہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ ؕ اَفَلَا یَسۡمَعُوۡنَ ﴿۲۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں، جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں۔ بلاشبہ اس میں یقینا بہت سی نشانیاں ہیں، تو کیا یہ نہیں سنتے؟
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کیا اُن کو اس (امر) سے ہدایت نہ ہوئی کہ ہم نے اُن سے پہلے بہت سی اُمتوں کو جن کے مقامات سکونت میں یہ چلتے پھرتے ہیں ہلاک کر دیا۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں۔ تو یہ سنتے کیوں نہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا اس بات نے بھی انہیں ہدایت نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں۔ اس میں تو (بڑی) بڑی نشانیاں ہیں۔ کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 26) {اَوَ لَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ …:} یہ بات مشرکین عرب کے متعلق فرمائی کہ کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا، جن کے تباہ شدہ کھنڈرات اب بھی باقی ہیں، جن میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں اور ان کی ویرانی ان کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ مراد عرب میں آنے والے پیغمبروں کی امتیں ہیں، یعنی قوم عاد، ثمود اور اہل مدین وغیرہ۔ اہلِ عرب ان کے کھنڈرات اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور ان اقوام کے حالات زندگی اپنے بزرگوں سے سنتے بھی تھے، پھر بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتے تھے، اس لیے فرمایا: «{ اَفَلَا يَسْمَعُوْنَ تو کیا یہ لوگ سنتے نہیں کہ پیغمبروں کی نافرمانی کا انجام کیا ہوتا ہے؟