وَ مَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوۡلِہٖ وَ لَا یَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ہُمۡ کُسَالٰی وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ ﴿۵۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور انھیں کوئی چیز اس سے مانع نہیں ہوئی کہ ان کی خرچ کی ہوئی چیزیں قبول کی جائیں مگر یہ بات کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور وہ نماز کو نہیں آتے مگر اس طرح کہ سست ہوتے ہیں اور خرچ نہیں کرتے مگر اس حال میں کہ نا خوش ہوتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ان کے خرچ (موال) کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوا اس کے انہوں نے خدا سے اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نماز کو آتے ہیں تو سست کاہل ہوکر اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

54۔ 1 اس میں ان کے صدقات کے عدم قبول کی تین دلیلیں بیان کی گئی ہیں، ایک ان کا کفر مفسق۔ دوسرا، کاہلی سے نماز پڑھنا، اس لئے وہ نماز پر نہ ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے ترک کی سزا سے انہیں کوئی خوف ہے، کیونکہ رضا اور خوف، یہ بھی ایمان کی علامت ہے جس سے محروم ہیں۔ اور تیسرا کراہت سے خرچ کرنا اور جس کام میں دل کی رضا نہ ہو وہ قبول کس طرح ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ تینوں وجوہات ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک وجہ بھی عمل کی نامقبولیت کے لئے کافی ہے۔ مذکورہ یہ کہ تینوں وجوہات جہاں جمع ہوجائیں تو اس عمل کے مردود بارگاہ الٰہی ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔