وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَیۡنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ نَجۡعَلۡہُمَا تَحۡتَ اَقۡدَامِنَا لِیَکُوۡنَا مِنَ الۡاَسۡفَلِیۡنَ ﴿۲۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کہیں گے اے ہمارے رب! تو ہمیں جنوں اور انسانوں میں سے وہ دونوں دکھا جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا، ہم انھیں اپنے قدموں کے نیچے ڈالیں، تاکہ وہ سب سے نچلے لوگوں سے ہو جائیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور کافر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار جنوں اور انسانوں میں سے جن لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا ان کو ہمیں دکھا کہ ہم ان کو اپنے پاؤں کے تلے (روند) ڈالیں تاکہ وہ نہایت ذلیل ہوں۔
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور کافر لوگ کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں جنوں انسانوں (کے وه دونوں فریق) دکھا جنہوں نے ہمیں گمراه کیا (تاکہ) ہم انہیں اپنے قدموں تلے ڈال دیں تاکہ وه جہنم میں سب سے نیچے (سخت عذاب میں) ہو جائیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

29۔ 1 اس کا مفہوم واضح ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے تاہم بعض نے جن سے ابلیس اور انسانوں سے قابیل مراد لیا ہے، جس نے انسانوں میں سے سب سے پہلے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے ظلم اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور حدیث کے مطابق قیامت تک ہونے والے ناجائز قتلوں کے گناہ کا ایک حصہ بھی اس کو ملتا رہے گا ہمارے خیال میں پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ 29۔ 2 یعنی اپنے قدموں سے انہیں روندیں اور اس طرح ہم انہیں خوب ذلیل و رسوا کریں جہنمیوں کو اپنے لیڈروں پر جو غصہ ہوگا اس کی تشفی کے لیے وہ یہ کہیں گے ورنہ دونوں ہی مجرم ہیں اور دونوں ہی یکساں جہنم کی سزا بھگتیں گے جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ) 7۔ الاعراف:38) جہنمیوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا تذکرہ فرما رہا ہے جیسا کہ عام طور پر قرآن کا انداز ہے تاکہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور ترغیب کے ساتھ ترہیب کا بھی اہتمام رہے گویا انذار کے بعد اب تبشیر۔