فَقَالُوۡا رَبَّنَا بٰعِدۡ بَیۡنَ اَسۡفَارِنَا وَ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ وَ مَزَّقۡنٰہُمۡ کُلَّ مُمَزَّقٍ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ﴿۱۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تو انھوں نے کہا اے ہمارے رب! ہمارے سفروں کے درمیان دوری پیدا کر دے، اور انھوں نے اپنی جانوںپر ظلم کیا تو ہم نے انھیں کہانیا ں بنا دیا اور انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، ہر طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنا، بلاشبہ اس میں ہر بہت صبر کرنے والے، بہت شکرکرنے والے کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تو انہوں نے دعا کی کہ اے پروردگار ہماری مسافتوں میں بُعد (اور طول پیدا) کردے اور (اس سے) انہوں نے اپنے حق میں ظلم کیا تو ہم نے (انہیں نابود کرکے) ان کے افسانے بنادیئے اور انہیں بالکل منتشر کردیا۔ اس میں ہر صابر وشاکر کے لئے نشانیاں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
لیکن انہوں نے پھر کہا کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کردے چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا اس لئے ہم نے انہیں (گزشتہ) فسانوں کی صورت میں کردیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیئے۔ بلاشبہ ہر ایک صبروشکر کرنے والے کے لئے اس (ماجرے) میں بہت سی عبرتیں ہیں
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
19۔ 1 یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کردے مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان و ویران جنگلات اور صحراؤں سے ہمیں گزرنا پڑے گرمیوں میں دھوب کی شدت اور سردیوں میں بیخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔ 19۔ 2 یعنی انھیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔ 19۔ 3 یعنی انھیں متفرق اور منتشر کردیا، چناچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جا آباد ہوئے، کوئی یثرب و مکہ آگیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہی