ترجمہ و تفسیر احسن البیان (صلاح الدین یوسف) — سورۃ سبأ (34) — آیت 18
وَ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ الۡقُرَی الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا قُرًی ظَاہِرَۃً وَّ قَدَّرۡنَا فِیۡہَا السَّیۡرَ ؕ سِیۡرُوۡا فِیۡہَا لَیَالِیَ وَ اَیَّامًا اٰمِنِیۡنَ ﴿۱۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور ہم نے ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت رکھی، نظر آنے والی بستیاں بنا دیں اور ان میں چلنے کا اندازہ مقرر کر دیا، راتوں اور دنوں کو بے خوف ہو کر ان میں چلو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم نے ان کے اور (شام کی) ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دی تھی (ایک دوسرے کے متصل) دیہات بنائے تھے جو سامنے نظر آتے تھے اور ان میں آمد ورفت کا اندازہ مقرر کردیا تھا کہ رات دن بےخوف وخطر چلتے رہو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی چند بستیاں اور (آباد) رکھی تھیں جو برسرراه ﻇاہر تھیں، اور ان میں چلنے کی منزلیں مقرر کردی تھیں ان میں راتوں اور دنوں کو بہ امن وامان چلتے پھرتے رہو

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

18۔ 1 برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیاں لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں بعض نے ظاھرۃ کے معنی متواصلۃ ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے لیے ہیں مفسریں نے ان بستیوں کی تعداد 4 ہزار سات سو بتلائی ہے یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لیے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دوسرے ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل و غارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا تھا 18۔ 2 یعنی ایک آبادی سے دوسری آبادی کا فاصلہ متعین اور معلوم تھا، اور اس کے حساب سے وہ بہ آسانی اپنا سفر طے کرلیتے تھے۔ مثلا صبح سفر کا آغاز کرتے تو دوپہر تک کسی آبادی اور قریے تک پہنچ جاتے۔ وہاں کھا پی کر قیلولہ کرتے اور پھر سر گرم سفر ہوجاتے تو رات کو کسی آبادی میں جا پہنچتے۔ 18۔ 3 یہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ اور زاد راہ کی مشقت سے بےنیاز ہونے کا بیان ہے کہ رات اور دن کی جس گھڑی میں تم سفر کرنا چاہو کرو نہ جان مال کا کوئی اندیشہ نہ راستے کے لیے سامان سفر ساتھ لینے کی ضرورت۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل