وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ نَعۡمَآءَ بَعۡدَ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ذَہَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیۡ ؕ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوۡرٌ ﴿ۙ۱۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بے شک اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہو تو یقینا ضرور کہے گا سب تکلیفیں مجھ سے دور ہو گئیں۔ بلاشبہ وہ یقینا بہت پھولنے والا، بہت فخر کرنے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسائش کا مزہ چکھائیں تو (خوش ہو کر) کہتا ہے کہ (آہا) سب سختیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ بےشک وہ خوشیاں منانے والا (اور) فخر کرنے والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں اس سختی کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو وه کہنے لگتا ہے کہ بس برائیاں مجھ سے جاتی رہیں، یقیناً وه بڑا ہی اترانے واﻻ شیخی خور ہے
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
10۔ 1 یعنی سمجھتا ہے کہ سختیوں کا دور گزر گیا، اب اسے کوئی تکلیف نہیں آئے گی۔ امۃ کے مختلف مفہوم: آیت نمبر 8 میں امۃ کا لفظ آیا ہے۔ یہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ یہ ام سے مشتق ہے، جس کے معنی قصد کے ہیں۔ یہاں اس کے معنی اس وقت اور مدت کے ہیں جو نزول عذاب کے لیے مقصود ہے۔ (فتح القدیر) سورة یوسف کی آیت 45 (واد کر بعد امۃ) میں یہی مفہوم ہے اس کے علاوہ جن معنوں میں اس کا استعمال ہوا ہے، ان میں ایک امام و پیشوا ہے۔ جیسے (ان ابراہیم کان امۃ) ملت اور دین ہے، جیسے انا وجدنا آباءنا علی امۃ) جماعت اور طائفہ ہے۔ جیسے (ولما ورد ماء امدین وجد علیہ امۃ من الناس) ومن قوم موسیٰ امۃ وغیرہا۔ وہ مخصوص گروہ یا قوم ہے جس کی طرف کوئی رسول مبعوث ہو۔ ولکل امۃ رسول اس کو امت دعوت بھی کہتے ہیں اور اسی طرح پیغمبر پر ایمان لانے والوں کو بھی امت یا امت اتباع یا امت اجابت کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر) 10۔ 2 یعنی جو کچھ اس کے پاس ہے، اس پر اتراتا اور دوسروں پر فخر و غرور کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم ان صفات مذمومہ سے اہل ایمان اور صاحب اعمال صالحہ مستشنٰی ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے۔