ترجمہ و تفسیر احسن البیان (صلاح الدین یوسف) — سورۃ يونس (10) — آیت 2
اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕؔ قَالَ الۡکٰفِرُوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کیا لوگوں کے لیے ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے ان میں سے ایک آدمی کی طرف وحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈرا اور جو لوگ ایمان لائے انھیں بشارت دے کہ ان کے لیے ان کے رب کے ہاں سچا مرتبہ ہے۔ کافروں نے کہا بے شک یہ تو کھلا جادوگر ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک مرد کو حکم بھیجا کہ لوگوں کو ڈر سنا دو۔ اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے۔ (ایسے شخص کی نسبت) کافر کہتے ہیں کہ یہ صریح جادوگر ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو ڈرائیے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنائیے کہ ان کے رب کے پاس ان کو پورا اجر ومرتبہ ملے گا۔ کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

2۔ 1 استفہام انکار تعجب کے لئے ہے، جس میں توبیخ کا پہلو بھی شامل ہے یعنی اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے ہی ایک آدمی کو وحی و رسالت کے لئے چن لیا، کیونکہ ان کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے وہ صحیح معنوں میں انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اگر وہ کسی اور جنس سے ہوتا تو فرشتہ یا جن ہوتا اور وہ دونوں ہی صورتوں میں رسالت کا اصل مقصد فوت ہوجاتا، اس لئے کہ انسان اس سے مانوس ہونے کی بجائے وحشت محسوس کرتا دوسرے، ان کے لئے اس کو دیکھنا بھی ممکن نہ ہوتا اور اگر ہم کسی جن یا فرشتے کا انسانی قالب میں بھیجتے تو پھر وہی اعتراض آتا کہ یہ تو ہماری طرح کا ہی انسان ہے۔ اس لئے ان کے اس تعجب میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ 2۔ 2 (قَدَمَ صِدْقٍ) کا مطلب، بلند مرتبہ، اجر حسن اور وہ اعمال صالحہ ہیں جو ایک مومن آگے بھیجتا ہے۔ 2۔ 3 کافروں کو جب انکار کے لئے بات نہیں سوجھتی تو یہ کہہ کر چھٹکارہ حاصل کرلیتے ہیں کہ یہ تو جادوگر ہے۔ نعوذ با للہ۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل