تجھے نہ ان کے اموال بھلے معلوم ہوں اور نہ ان کی اولاد، اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان کے ذریعے دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تم ان کے مال اور اولاد سے تعجب نہ کرنا۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے اور (جب) ان کی جان نکلے تو (اس وقت بھی) وہ کافر ہی ہوں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
پس آپ کو ان کے مال واوﻻد تعجب میں نہ ڈال دیں۔ اللہ کی چاہت یہی ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور ان کے کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں
(آیت55) ➊ {فَلَاتُعْجِبْكَاَمْوَالُهُمْوَلَاۤاَوْلَادُهُمْ:} یعنی آپ ان لوگوں کے مال و دولت، اولاد اور دنیوی چمک دمک سے دھوکے میں نہ پڑیں کہ اگر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوتا تو یہ اس قدر مال دار اور صاحب اولاد کیوں ہوتے؟ بلکہ آپ ان کی ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۳۱) اور مومنون (۵۵، ۵۶)۔ ➋ { اِنَّمَايُرِيْدُاللّٰهُلِيُعَذِّبَهُمْبِهَافِيالْحَيٰوةِالدُّنْيَا:} یعنی دنیا میں ان چیزوں کو سعادت مندی خیال مت کریں، اللہ تعالیٰ نے انھیں صرف اس لیے ڈھیل دے رکھی ہے کہ دن رات مال جمع کرنے اور اولاد کی حفاظت کی فکر میں لگے رہیں، نہ انھیں دن کا چین نصیب ہو نہ رات کا آرام۔ سکون قلب جو فقط اللہ کی یاد سے حاصل ہوتا ہے، یعنی «اَلَابِذِكْرِاللّٰهِتَطْمَىِٕنُّالْقُلُوْبُ»[الرعد: ۲۸] اس سے یہ سراسر محروم رہیں۔ ➌ { تَزْهَقَاَنْفُسُهُمْوَهُمْكٰفِرُوْنَ:} یعنی آخر دم تک انھیں توبہ کرنے اور سچے دل سے ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو، بلکہ جب یہ مریں تو اپنے مال اور اولاد ہی کی طرف ان کا دھیان ہو، نہ آخرت کی فکر نہ اللہ تعالیٰ سے کوئی غرض۔ اگرچہ مومن کو بھی اپنے مال اور اولاد کی فکر ہوتی ہے، مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اس کے نزدیک ہر چیز سے مقدم ہوتی ہے اس لیے یہ چیزیں اس کے لیے نعمت ہی ہوتی ہیں وبال جان نہیں ہوتیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
55۔ 1 اس لئے یہ بطور آزمائش ہے، جس طرح فرمایا ' اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تاکہ ان کی آزمائش کریں کہ ہم دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں (تو اس سے) ان کی بھلائی میں ہم جلدی کر رہے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے نہیں ' 55۔ 2 امام ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری نے اس سے زکٰوۃ اور نفاق فی سبیل اللہ مراد لیا ہے۔ یعنی ان منافقین سے زکٰوۃ و صدقات تو (جو وہ مسلمان ظاہر کرنے کے لئے دیتے ہیں) دنیا میں قبول کر لئے جائیں تاکہ اسی طریقے سے ان کو مالی مار بھی دنیا میں دی جائے۔ 55۔ 3 تاہم ان کی موت کفر ہی کی حالت میں آئے گی۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے پیغمبر کو صدق دل سے ماننے کے لئے تیار نہیں اور اپنے کفر و نفاق پر ہی بدستور قائم و مصر ہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
55۔ ان لوگوں کے مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ انہی چیزوں کے ذریعہ انہیں دنیا کی زندگی میں سزا [59] دے اور جب ان کی جان نکلے تو اس وقت یہ کافر ہی ہوں
[59] منافقوں کو مال اور اولاد سے سزا کیسے ملی؟
مدینہ میں جتنے منا فق تھے سب سن رسیدہ اور مالدار لوگ تھے اور منافقوں کا مطمح نظر محض دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے لہٰذا عام مادہ پرستوں اور دنیا پرستوں کی طرح ان کے نزدیک بھی عز و جاہ کا معیار اولاد اور مال و دولت کی فراوانی تھی۔ اب انہیں مشکل یہ پیش آئی کہ ان کی اولادیں مسلمان ہو گئیں۔ جن کے نزدیک عز و جاہ کا معیار ان کے معیار سے بالکل برعکس تھا۔ جن کی نظروں میں مال اور جائیداد کی قدر و قیمت اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کے مقابلہ میں ہیچ تھی اور ان کے نزدیک عز و جاہ کا معیار یہ تھا کہ جتنا بھی کوئی اللہ کے رسول کا شیدائی اور فرمانبردار ہو گا اتنا ہی وہ اسلامی معاشرہ میں معزز و مکرم سمجھا جائے گا۔ اس نظریاتی اختلاف نے انہیں اپنی اولاد ہی کی نظروں میں ذلیل کر دیا۔ اس طرح اللہ نے ان کی اولاد ہی کے ذریعہ انہیں دنیا میں سزا دے دی۔ اور چونکہ وہ اپنی خود پرستی والی طبیعت کو بھی بدل نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا وہ آخر دم تک اسی ننانوے کے چکر میں ہی پڑے رہے تا آنکہ انہیں موت آ گئی اور وہ اسی نفاق اور ذلت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے ٭٭
ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ، ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لیے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم مؤخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے۔ پہلا قول حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی، یوں ہی بتدریج پکڑ لیے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا۔ یہی حشمت و جاہت، مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا۔