اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے کچھ سامان ضرور تیار کرتے اور لیکن اللہ نے ان کا اٹھنا نا پسند کیا تو انھیں روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر وہ نکلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے سامان تیار کرتے لیکن خدا نے ان کا اُٹھنا (اور نکلنا) پسند نہ کیا تو ان کو ہلنے جلنے ہی نہ دیا اور (ان سے) کہہ دیا گیا کہ جہاں (معذور) بیٹھے ہیں تم بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر ان کا اراده جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وه اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں حرکت سے ہی روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہی رہو
(آیت46) ➊ { وَلَوْاَرَادُواالْخُرُوْجَلَاَعَدُّوْالَهٗعُدَّةً …:} اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنگ تبوک کے موقع پر منافقین اور ان تمام جھوٹے دعوے داروں کی حقیقت کھول دی جو کہتے ہیں کہ ہم بھی مجاہد ہیں اور ہر وقت جہاد کے لیے نکلنے کو تیار ہیں، مگر ساٹھ ستر برس کی عمر تک پہنچ جانے کے باوجود کبھی نہ مجاہدین کے ساتھ نکلے، نہ نشانہ بازی سیکھی، نہ تیراکی، نہ فنون حرب میں سے کوئی فن سیکھا، نہ کسی معرکے میں شریک ہوئے، نہ جہاد کے لیے جسم تیار کیا، نہ جہاد کے لیے درکار سامان جمع کیا۔ بس ڈگریوں کے حصول، ملازمت، کفار کی غلامی، کاروبار اور حلال و حرام ہر طرح دنیا کمانے میں لگے رہے، یا پیری فقیری اور ھُو حق میں لگے رہے۔ اولاد کو بھی اسی پر لگائے رکھا اور جب جہاد کا تذکرہ ہوا تو اللہ کے راستے میں نکلنے والوں پر دو چار طنزیہ فقرے کس کر اپنے آپ کو نفس سے جہاد کرنے والا مجاہد اکبر اور جان قربان کرنے والوں کو جہاد اصغر میں مصروف قرار دے دیا (جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے صاف جھوٹ ہے)۔ ان کے جہاد اکبر اور نفس سے جہاد کی حقیقت ان کی جہاد کی تیاری ہی سے ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کو بھی ان کے نفاق اور بدعملی کی وجہ سے مخلص مجاہدین کے ساتھ ان کا نکلنا پسند نہیں ہے، تبھی اس نے انھیں نکلنے کی توفیق ہی سے محروم کر دیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مر گیا اور اس نے نہ جنگ کی اور نہ اپنے دل کے ساتھ کبھی جنگ کرنے کی بات چیت کی تو وہ نفاق کی ایک شاخ پر مرے گا۔“[مسلم، الإمارۃ، باب ذم من مات ولم یغز…: ۱۹۱۰] ➋ {فَثَبَّطَهُمْ: ”ثَبَّطَهُتَثْبِيْطًا“} کسی آدمی کے کام میں رکاوٹ ڈال دینا، یا کسی طریقے سے اسے اس سے باز رکھنا۔ ➌ { وَقِيْلَاقْعُدُوْامَعَالْقٰعِدِيْنَ:} اس سے ان کی مذمت مقصود ہے کہ انھوں نے اپنے نفاق، بزدلی اور بے ہمتی کی وجہ سے عورتوں، بچوں، بیماروں اور جنگ میں شرکت سے لاچار بوڑھوں کے ساتھ پیچھے بیٹھ رہنا پسند کر لیا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
46۔ 1 یہ انہیں منافقوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے جنہوں نے جھوٹ بول کر اجازت حاصل کی تھی کہ اگر وہ جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتے تو یقینا اس کے لئے تیاری کرتے۔ 46۔ 2 فثبطھم کے معنی ہیں انکو روک دیا، پیچھے رہنا ان کے لئے پسندیدہ بنادیا گیا، پس وہ سست ہوگئے اور مسلمانوں کے ساتھ نہیں نکلے مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں ان کی شرارتیں اور سازشیں تھیں، اس لئے اللہ کی تقدیری مشیت یہی تھی کہ وہ نہ جائیں۔ (2) یہ یا تو اسی مشیت الٰہی کی تعبیر ہے جو تقدیرا لکھی ہوئی تھی یا بطور ناراضگی اور غضب کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اچھا ٹھیک ہے تم عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کی صف میں شامل ہو کر ان کی طرح گھروں میں بیٹھے رہو۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
46۔ اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا [49] تو وہ اس کے لئے کچھ تیاری بھی کرتے لیکن اللہ کو ان کی روانگی پسند ہی نہ تھی۔ لہذا اس نے انہیں سست بنا دیا اور کہہ دیا گیا کہ ”تم بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے ہی رہو
[49] منافقوں کی سچائی کا معیار:۔
اگر انہوں نے جہاد کی تیاری مکمل طور پر کر لی ہوتی تو پھر کوئی ایسا حادثہ پیش آجاتا جس کی وجہ سے وہ فی الواقع جہاد پر جانے سے معذور ہوتے تو اس صورت میں تو ان کی سچائی پر اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ لیکن جس صورت میں انہیں کوئی ایسی فکر لاحق ہی نہ ہوتی ہو اور ان کا سارا دار و مدار صرف حیلوں بہانوں پر ہی موقوف ہو تو اس صورت میں انہیں سچا کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی جہاد میں شمولیت اللہ کو پسند بھی نہیں جس سے اسلامی فوج کو ان سے کسی فائدہ کے بجائے نقصان کا خطرہ زیادہ ہو۔ چنانچہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ گھروں میں ہی بیٹھ رہنا ان کے نصیب ہوا۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
غلط گو غلط کار کفار و منافق ٭٭
یہ عذر کرتے ہیں۔ ان کے غلط ہونے کی ایک ظاہری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو کم از کم سامان سفر تو تیار کر لیتے لیکن یہ تو اعلان اور حکم کے بعد بھی کئی دن گزرنے پر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہ کیا۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا اس لیے انہیں پیچھے ہٹا دیا، اور قدرتی طور پر ان سے کہ دیا گیا کہ تم تو بیٹھنے والوں کا ہی ساتھ دو۔ سنو ان کے ساتھ کو ناپسند رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے نامراد اعلیٰ درجے کے بزدل بڑے ہی ڈرپوک ہیں۔ اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا کی مثل کو اصل کر دکھاتے اور ان کے ساتھ ہی تم میں بھی فساد برپا ہو جاتا۔ یہ ادھر کی ادھر، ادھر کی ادھر لگا بجھا کر بات کا بتنگڑ بنا کر آپس میں پھوٹ اور عداوت ڈلوا دیتے اور کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے تمہیں آپس میں ہی الجھا دیتے، ان کے ماننے والے ان کے ہم خیال ان کی پالیسی کو اچھی نظر سے دیکھنے والے خود تم میں بھی موجود ہیں وہ اپنے بھولے پن سے ان کی شر انگیزیوں سے بے خبر رہتے ہیں جس کا نتیجہ مومنوں کے حق میں نہایت برا نکلتا ہے آپس میں شر و فساد پھیل جاتا ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گویندے ان کی سی آئ ڈی اور جاسوس بھی تم میں لگے ہوئے تھے جو تمہاری رتی رتی کی خبریں انہیں پہنچاتے ہیں۔ لیکن یہ معنی کرنے سے وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو شروع آیت سے ہے یعنی ان لوگوں کا تمہارے ساتھ نہ نکلنا اللہ تعالیٰ کو اس لیے بھی ناپسند رہا کہ تم میں بعض وہ بھی ہیں جو ان کی مان لیا کرتے ہیں۔ یہ تو بہت درست ہے لیکن ان کے نہ نکلنے کی وجہ کے لیے جاسوسی کی کوئی خصوصیت ان کی نہ نکلنے کی وجہ کے لئے نہیں ہو سکتی۔
اسی لیے قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ مفسرین کا یہی قول ہے۔ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اجازت طلب کرنے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور جد بن قیس بھی تھا اور یہی بڑے بڑے رؤسا اور ذی اثر منافق تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں دور ڈال دیا، اگر یہ ساتھ ہوتے تو ان کی منہ دیکھی ماننے والے وقت پر ان کے ساتھ ہو کر مسلمانوں کے نقصان کا باعث بن جاتے محمدی لشکر میں ابتری پھیل جاتی کیونکہ یہ لوگ وجاہت والے تھے اور کچھ مسلمان ان کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے ظاہری اسلام اور چرب کلامی پر مفتون تھے اور اب تک ان کے دلوں میں ان کی محبت تھی، یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے تھی، سچ ہے پورا علم اللہ ہی کو ہے غائب حاضر جو ہو چکا ہو اور ہونے والا ہو سب اس پر روشن ہے اسی اپنے علم غیب کی بنا پر وہ فرماتا ہے کہ تم مسلمانو! ان کا نہ نکلنا غنیمت سمجھو یہ ہوتے تو اور فساد و فتنہ برپا کرتے، نہ کرتے نہ کرنے دیتے، اسی باعث فرمان ہے کہ اگر کفار دوبارہ بھی دنیا میں لوٹائے جائیں تو نئے سرے سے پھر وہی کریں جس سے منع کئے جائیں اور یہ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہیں۔ ۱؎[6-الأنعام:28] ایک اور آیت میں ہے کہ اگر علم اللہ تعالیٰ میں ان کے دلوں میں کوئی بھی خیر ہوتی تو اللہ تعالیٰ عزوجل انہیں ضرور سنا دیتا لیکن اب تو یہ حال ہے کہ سنیں بھی تو منہ موڑ کر لوٹ جائیں۔ ۱؎[8-الأنفال:23] اور جگہ ہے کہ اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم آپس میں ہی موت کا کھیل کھیلو یا جلا وطن ہو جاؤ تو بجز بہت کم لوگوں کے یہ ہرگز اسے نہ کرتے، حالانکہ ان کے حق میں بہتر اور اچھا یہی تھا کہ جو نصیحت انہیں کی جائے یہ اسے بجا لائیں تاکہ اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم دیں اور راہ مستقیم دکھائیں۔ ۱؎[4-النساء:68،66] اور بھی ایسی آیتیں بہت ساری ہیں۔