(آیت45) { اِنَّمَايَسْتَاْذِنُكَالَّذِيْنَلَايُؤْمِنُوْنَ …:} پس مومنین اور منافقین کے درمیان فرق یہ ہے کہ جہاد کا اعلان ہونے پر مومن تو بلا تامل نکل کھڑے ہوتے ہیں، مگر جو منافق ہیں وہ بہانے تراشتے ہیں اور ہر ایسے موقع پر مذبذب بھی ہو جاتے ہیں، کبھی دل کہتا ہے چلو! شاید پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سچ ہی کہتے ہوں اور کبھی دل میں آتا ہے نہیں، یہ سب ڈھکوسلے اور ڈرانے کی باتیں ہیں، بس دنیا میں چند روز جینا ہے، آرام سے دن کاٹ لیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
45۔ 1 یہ ان منافقین کا بیان ہے جنہوں نے جھو ٹے حیلے تراش کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کرلی تھی۔ ان کی بابت کہا گیا ہے کہ یہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی عدم ایمان نے انہیں جہاد سے گریز پر مجبور کیا۔ اگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوتا تو نہ جہاد سے یہ بھاگتے نہ شکوک و شبہات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
45۔ آپ سے رخصت صرف وہی لوگ مانگتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے اسی شک میں متردد ہیں