لَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تجھ سے وہ لوگ اجازت نہیں مانگتے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اس سے کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کریں اور اللہ متقی لوگوں کو خوب جاننے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو لوگ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو تم سے اجازت نہیں مانگتے (کہ پیچھے رہ جائیں بلکہ چاہتے ہیں کہ) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور خدا ڈرنے والوں سے واقف ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ویقین رکھنے والے تو مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت44) {لَا يَسْتَاْذِنُكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ …:} کیونکہ انھیں تو خود جہاد میں جانے کا شوق ہے اور وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب انھیں اللہ کی راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کے معاش میں ان کے لیے سب سے بہتر وہ آدمی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے ہوئے ہے، اس کی پشت پر اڑتا پھر رہا ہے، جب کبھی دشمن کی آمد پر کوئی خوف کی آواز یا گھبراہٹ سنتا ہے تو اڑ کر وہاں پہنچ جاتا ہے، وہ قتل اور موت کو ان جگہوں میں تلاش کرتا ہے جہاں وہ مل سکتی ہیں۔ [مسلم، الإمارۃ، باب فضل الجہاد والرباط،: ۱۸۸۹، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ]

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

44۔ 1 یہ مخلص ایمانداروں کا کردار بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ نہایت ذوق شوق کے ساتھ اور بڑھ چڑھ کر جہاد میں حصہ لیتے ہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

44۔ جو لوگ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں وہ آپ سے ایسی رخصت [48] نہیں مانگتے کہ انہیں اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے
[48] اللہ اور آخرت پر ایمان سے مراد اللہ کے وعدوں کو سچا سمجھنا ہے:۔
یہاں اللہ پر ایمان لانے سے مراد اللہ کے وہ وعدے ہیں جو اس نے فتح و نصرت سے متعلق مسلمانوں سے کیے ہیں اور آخرت پر ایمان سے مراد بھی جنت میں داخل کرنے اور بڑے درجات عطا کرنے کے وعدے ہیں اس لحاظ سے جن لوگوں کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے وہ تو فوراً اپنے اموال اور جانوں سے جہاد پر روانہ ہو جائیں گے اور ایسے لوگوں کو رخصت مانگنے کی نوبت ہی پیش نہیں آتی۔ البتہ جن منافقوں کا یہ یقین ہی نہیں کہ اللہ کے وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گی اور نہ ہی آخرت کے وعدوں پر پورا یقین ہے۔ وہ بس اپنے دنیوی مفادات کا ہی موازنہ کرنے میں مشغول ہیں۔ کبھی یہ سوچتے ہیں کہ شاید ان کا جہاد پر جانا سودمند ثابت ہو اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ کہیں الٹا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں اور وہیں موت سے دوچار ہونا پڑے۔ بس اسی گومگو کی حالت میں پڑے سوچتے ہیں۔ بالآخر انہیں یہی تدبیر کامیاب نظر آتی ہے کہ حیلوں بہانوں سے آپ سے معذرت کر لیں تاکہ ان کے جھوٹ اور بدنیتی پر پردہ پڑا رہے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

نہ ادھر کے نہ ادھر کے ٭٭
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کی اپنے محبوب سے کیسی پیار بھری باتیں ہو رہی ہیں، سخت بات سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جا رہا ہے کہ اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورۃ النور میں سونپ دیا جاتا ہے۔
اور ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے «فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ» ۱؎ [24-النور:62]‏‏‏‏ یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں۔
یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہو جائے تو اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تاہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے، نیک و بد میں ظاہری تمیز ہو جاتی، اطاعت گزار تو حاضر ہو جاتے نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے، کیونکہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں۔
اسی لیے جناب باری تعالیٰ نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ ربانی کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں، وہ تو جہاد کو موجب قربت الہی مان کر اپنی جان و مال کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے۔
یہ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بے ایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت سے شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر ہیں نہ ادھر یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوارنے کا کوئی رستہ نہ پائے گا۔