یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللّٰہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ یَاۡبَی اللّٰہُ اِلَّاۤ اَنۡ یُّتِمَّ نُوۡرَہٗ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۳۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ نہیں مانتا مگر یہ کہ اپنے نور کو پورا کرے، خواہ کافر لوگ برا جانیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں۔ اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
وه چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منھ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ انکاری ہے مگر اسی بات کا کہ اپنا نور پورا کرے گو کافر ناخوش رہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت32){يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ …:} اللہ کے نور سے مراد اسلام اور اس کے صدق کے دلائل ہیں جو بے انتہا روشن ہیں۔ اس آیت میں یہودو نصاریٰ کی تیسری قبیح صفت کا بیان ہے کہ وہ اسلام کے پھیلاؤ کو روکنے اور اسے مٹانے کے لیے ہر قسم کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ان کی اسلام کو روکنے اور مٹانے کی تمام کوششوں کے بے کار ہونے کو استعارے کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف بہت ہی بڑا نور مثلاً سورج یا چاند ہو اور دوسری طرف اسے بجھانے کی سب سے کمزور کوشش منہ سے پھونکیں مارنا ہو تو ان پھونکوں کا انجام ہر ایک پر واضح ہے۔ اسی طرح ایک طرف اللہ کا نور، یعنی اسلام ہے، جسے اللہ تعالیٰ ہر حال میں پورا کرنا طے کر چکا ہے، دوسری طرف ان یہود و نصاریٰ کی اسے روکنے اور مٹانے کی حقیر اور بے کار کوششیں ہیں، جو سورج کو نہیں بلکہ کائنات کے سب سے بڑے نور کو سب سے حقیر چیز منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں۔ بھلا اس سے وہ نورِ اسلام کی تکمیل کو روک سکتے ہیں؟

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

32۔ 1 یعنی اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، یہود و نصاریٰ اور مشرکین چاہتے ہیں کہ اپنے جدال و افترا سے اس کو مٹا دیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سورج کی شعاعوں کو یا چاند کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دے پس! جس طرح یہ ناممکن ہے اسی طرح جو دین حق اللہ نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہے اس کا مٹانا بھی ناممکن ہے۔ وہ تمام دینوں پر غالب آ کر رہے گا، جیسا کہ اگلے جملے میں اللہ نے فرمایا، کافر کے لغوی معنی ہیں چھپانے والا اسی لئے رات کو بھی ' کافر ' کہا جاتا ہے کہ وہ تمام چیزوں کو اپنے اندھیروں میں چھپا لیتی ہے کاشت کار کو بھی ' کافر ' کہتے ہیں کیونکہ وہ غلے کے دانوں کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔ گویا کافر بھی اللہ کے نور کو چھپانا چاہتے ہیں یا اپنے دلوں میں کفر و نفاق اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض وعناد چھپائے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

32۔ وہ چاہتے یہ ہیں کہ اللہ کے نور کو [32] اپنی پھونکوں سے گل کر دیں لیکن اللہ کو یہ بات منظور نہیں وہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا، خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی بری لگے
[32] اللہ کے نور سے مراد:۔
اللہ کے نور سے مراد آفتاب ہدایت یا کتاب و سنت کی روشنی ہے جس طرح سورج کی روشنی کو پھونکوں سے بجھایا یا ماند نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ان کافروں کی معاندانہ سرگرمیوں سے، ان کے لغو اعتراضات سے، ان کی آیات الٰہی میں شبہات پیدا کرنے سے یا اللہ کی آیات، اللہ کے رسول اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے سے دین اسلام کی راہ کو روکا نہیں جا سکتا۔ جسے اللہ ہر صورت میں پورا کرنا چاہتا ہے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ کافروں کو اسلام کی ترقی ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی۔ ہر ترقی کے قدم پر وہ جل بھن کے رہ جاتے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

کفارہ کی دلی مذموم خواہش ٭٭
فرماتا ہے کہ ہر قسم کے کفار کا ارادہ اور چاہت یہی ہے کہ اللہ کا نور بجھا دیں ہدایتِ ربانی اور دینِ حق کو مٹا دیں تو خیال کر لو کہ اگر کوئی شخص اپنے منہ کی پھونک سے آفتاب یا مہتاب کی روشنی بجھانی چاہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح یہ لوگ بھی اللہ کے نور کے بجھانے کی چاہت میں اپنی امکانی کوشش کرلیں آخر عاجز ہو کر رہ جائیں گے۔
ضروری بات ہے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ دین حق تعلیمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہو گا۔ تم مٹانا چاہتے ہو اللہ تعالیٰ بلند کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چاہت تمہاری چاہت پر غالب رہے گی تم گو ناخوش رہو لیکن آفتابِ ہدایت بیچ آسمان میں پہنچ کر ہی رہے گا۔
عربی لغت میں کافر کہتے ہیں کسی چیز کے چھپا لینے والے کو اسی اعتبار سے رات کو بھی کافر کہتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے، کسان کو کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے زمین میں چھپا دیتا ہے۔
جیسے فرمان ہے «اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ» ۱؎ [57-الحديد:20]‏‏‏‏ اسی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی خبریں اور صحیح ایمان اور نفع والا علم یہ ہدایت ہے اور عمدہ اعمال جو دنیا آخرت میں نفع دیں یہ دین حق ہے۔ یہ تمام مذاہب عالم پر چھا کر رہے گا۔
نبی کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: میرے لیے مشرق و مغرب کی زمین لپیٹ دی گئی میری امت کا ملک ان تمام جگہوں تک پہنچے گا۔‏‏‏‏ ۱؎ [صحیح مسلم:2889]‏‏‏‏ فرماتے ہیں تمہارے ہاتھوں پر مشرق و مغرب فتح ہو گا۔ تمہارے سردار جہنمی ہیں، بجز ان کے جو متقی، پرہیزگار اور امانت دار ہوں۔ ۱؎ [مسند احمد:366،367/5:صحیح]‏‏‏‏
فرماتے ہیں یہ دین تمام اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر دن رات پہنچیں کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں اللہ عزوجل اسلام کو نہ پہنچائے۔ عزیزوں کو عزیز کرے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا۔ اسلام کو عزت دینے والوں کو عزت ملے گی اور کفر کو ذلت نصیب ہو گی۔
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو یہ بات خود اپنے گھر میں بھی دیکھ لی جو مسلمان ہوا اسے خیر و برکت، عزت و شرافت ملی اور جو کافر رہا اسے ذلت و نکبت، نفرت و لعنت نصیب ہوئی، پستی اور حقارت دیکھی اور کمینہ پن کے ساتھ جزیہ دینا پڑا۔ ۱؎ [مسند احمد:103/4:صحیح]‏‏‏‏
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے وہ عزت والوں کو عزت دے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا جنہیں عزت دینی چاہے گا انہیں اسلام نصیب کرے گا اور جنہیں ذلیل کرنا ہو گا وہ اسے مانیں گے نہیں لیکن اس کی ماتحتی میں انہیں آنا پڑے گا۔‏‏‏‏ ۱؎ [مسند احمد:4/6:صحیح]‏‏‏‏
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے مجھ سے فرمایا: اسلام قبول کر تاکہ سلامتی ملے۔‏‏‏‏ میں نے کہا: میں تو ایک دین کو مانتا ہوں۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے دین کا تجھ سے زیادہ مجھے علم ہے۔‏‏‏‏ میں نے کہا: سچ۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالکل سچ۔ کیا تو رکوسیہ میں سے نہیں ہے؟ کیا تو اپنی قوم سے ٹیکس وصول نہیں کرتا؟ میں نے کہا: یہ تو سچ ہے۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے دین میں یہ تیرے لیے حلال نہیں۔‏‏‏‏ پس یہ سنتے ہی میں تو جھک گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں خوب جانتا ہوں کہ تجھے اسلام سے کون سی چیز روکتی ہے۔ سن! صرف ایک یہی بات تجھے روک رہی ہے کہ مسلمان بالکل ضعیف اور کمزور اور ناتواں ہیں تمام عرب انہیں گھیرے ہوئے ہے یہ ان سے نپٹ نہیں سکتے لیکن سن! حیرہ کا تجھے علم ہے؟
میں نے کہا: دیکھا تو نہیں سنا ضرور ہے۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امر دین کو پورا فرمائے گا یہاں تک کہ ایک سانڈنی سوار حیرہ سے چل کر بغير كسي كي امان كےُمکہ معظمہ پہنچے گا اور بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ واللہ! تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔‏‏‏‏ میں نے کہا: کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ہاں کسریٰ بن ہرمز کے، تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔‏‏‏‏
اس حدیث کو بیان کرتے وقت عدی رحمہ اللہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پورا ہوا یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف و خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں۔ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری پیشن گوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں کئے۔ واللہ! مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔‏‏‏‏ ۱؎ [مسند احمد:378/4:حسن]‏‏‏‏
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دن رات کا دور ختم نہ ہو گا۔ جب تک کہ پھر لات و عزیٰ کی عبادت نہ ہونے لگے۔‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ» کے نازل ہونے کے بعد سے میرا خیال تو آج تک یہی رہا کہ یہ پوری بات ہے۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں پوری ہو گئی اور مکمل ہی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین ایک پاک ہوا بھیجیں گے جو ہر اس شخص کو بھی فوت کرلے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ پھر وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں کوئی خیر و خوبی نہ ہو گی۔ پس وہ اپنے باپ دادوں کے دین کی طرف پھر سے لوٹ جائیں گئے۔‏‏‏‏ ۱؎ [صحیح مسلم:2907]‏‏‏‏