ترجمہ و تفسیر — سورۃ التوبة (9) — آیت 12
وَ اِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَ طَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمَانَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ یَنۡتَہُوۡنَ ﴿۱۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمھارے دین میں طعن کریں تو کفر کے پیشوائوں سے جنگ کرو۔ بے شک یہ لوگ، ان کی کوئی قسمیں نہیں ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعنے کرنے لگیں تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو (یہ یہ بےایمان لوگ ہیں اور) ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ عجب نہیں کہ (اپنی حرکات سے) باز آجائیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر یہ لوگ عہدوپیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ۔ ان کی قسمیں کوئی چیز نہیں، ممکن ہے کہ اس طرح وه بھی باز آجائیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت12) ➊ {وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ …:} یعنی جن لوگوں کی حالت یہ ہو کہ وہ نہ صرف تم سے معاہدہ کر کے اسے توڑتے ہوں بلکہ تمھارے دین کا مذاق اڑاتے، اس میں طعن کرتے اور عیب نکالتے ہوں تو سمجھ لو کہ یہی { اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ } (کفر کے سردار) ہیں۔ ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں، لہٰذا تم ان لوگوں کو کسی قسم کا موقع دیے بغیر ان سے جنگ کرو، تاکہ تمھاری تلواروں کی کاٹ سے وہ اپنے کرتوتوں سے باز آ جائیں۔ معلوم ہوا کہ دین اسلام پر طعن کرنے والا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کرنے والا واجب القتل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ تمام کفار سے جنگ کی، مگر دین میں طعن، اسلام اور مسلمانوں کی توہین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والوں کے قتل کا خاص اہتمام فرمایا۔ کعب بن اشرف یہودی اور ابو رافع یہودی وغیرہ کو فدائی حملوں کے ذریعے سے قتل کروانے کے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ فتح مکہ کے موقع پر بد زبانوں کا خون رائگاں قرار دینا بھی اس کی مثال ہے۔ کفار کی طرف سے عہد توڑنے کے بعد اگر ان سے جنگ نہ کی جائے تو یہ مسلمانوں کی طرف سے بے حد کمزوری کا اظہار اور انتہا درجے کی ذلت اور بے غیرتی ہو گی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عہد توڑنے والوں سے در گزر نہیں فرماتے تھے، بلکہ فوراً انھیں ان کے انجام تک پہنچاتے تھے۔ بنو قریظہ اور اہل مکہ کے عہد توڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کارروائی اس کی روشن مثال ہے، مگر افسوس آج کفار کے اپنے تمام معاہدے توڑنے کے باوجود مسلمان حکام ان سے خوف زدہ اور خاموش ہیں۔
➋ { اِنَّهُمْ لَاۤ اَيْمَانَ لَهُمْ:} اللہ تعالیٰ نے کفار کے کسی عہد و پیمان کے معتبر نہ ہونے کا جو ذکر فرمایا یہ واقعی حقیقت ہے جس کا ثبوت نصرانیوں کا اندلس سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینا ہے اور وہ سلوک بھی جو تاتاریوں نے مسلمانوں خصوصاً بغداد کے مسلمانوں کے ساتھ ۶۵۶ھ (1258ء) میں کیا اور جو کچھ ہندوؤں اور سکھوں نے پاکستان آنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا اور اب تک کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں سے کر رہے ہیں اور جو کچھ روس اور دوسری کمیونسٹ ریاستوں نے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے کیا اور اب امریکہ، یورپ اور پورا عالم کفر جس طرح عراق، افغانستان اورپاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ کر رہا ہے اور جھوٹے الزام گھڑ کر وہ تمام عہد جو اقوام متحدہ کے ذریعے سے کیے تھے پس پشت ڈال کر اسلام اور مسلمانوں کو برباد کر رہا ہے، یہ سب کفار کے کسی عہد کے عہد نہ ہونے کی واضح مثالیں ہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

12۔ 1 ایمان، یمین کی جمع ہے جس کے معنی قسم کے ہیں۔ ائمہ امام کی جمع ہے۔ مراد پیشوا اور لیڈر ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عہد توڑ دیں اور دین میں طعن کریں، تو ظاہری طور پر یہ قسمیں بھی کھائیں تو ان قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کفر کے ان پیشواؤں سے لڑائی کرو، ممکن ہے اس طرح اپنے کفر سے باز آجائیں۔ اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا۔ البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔ لیکن امام مالک، امام شافعی اور دیگر علماء طعن فی الدین کو نقض عہد بھی قرار دیتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک اس میں دونوں ہی چیزیں آجاتی ہیں لہذا اس ذمی کا قتل جائز ہے اسی طرح نقض عہد کی صورت میں بھی قتل جائز ہے۔ (فتح القدیر)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

12۔ اور اگر وہ معاہدہ کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور دین میں طعنہ زنی کریں تو کفر کے ان علمبرداروں [11] سے جنگ کرو، ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں (اور اس لیے جنگ کرو) کہ وہ باز آجائیں
[11] ذمیوں کی معاندانہ سرگرمیاں:۔
اس آیت کے مفہوم میں وہ کافر و مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو اعلان برأت سے پیشتر اپنے عہد توڑتے اور دین میں طعنہ زنی کرتے رہے اور وہ بھی شامل ہیں جو اعلان برأت کے بعد بظاہر اسلام لے آئے لیکن ان کے دل اسلام کی طرف ہرگز مائل نہیں تھے بلکہ وہ محض وقتی مصلحت اور مسلمانوں کے غلبہ کے دباؤ کے تحت اسلام لائے تھے اور کسی مناسب موقع کے منتظر تھے کہ کب وہ اسلام میں کوئی کمزوری دیکھیں تو اپنے اسلام لانے کے عہد کو توڑ دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو انہیں ایسا موقع میسر نہ آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فوراً انہوں نے اس عہد کو توڑ ڈالا اور پھر سے مرتد ہو گئے کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام کو جو کچھ غلبہ اور شان و شوکت حاصل ہوئی ہے وہ صرف رسول اللہ کے دم قدم سے تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد ایسے قبائل نے پوری قوت کے ساتھ بغاوت کا علم بلند کر دیا اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اس آیت کے مصداق ان کی ٹھیک ٹھیک سرکوبی کی۔
توہین رسالت کی سزا موت:۔
ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی اسلامی حکومت میں رہنے والے اہل الذمہ دین اسلام کا تمسخر اڑائیں یا طعنہ زنی کریں تو ان کا معاہدہ ختم اور ان کی سرکوبی کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جو ذمی یا کوئی دوسرا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی کوئی باتیں کرے وہ واجب القتل ہے کیونکہ یہ دین میں طعنہ زنی کی ایک بد ترین قسم کا جرم ہے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب دو ٭٭
اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی اور عہد شکنی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم ان کے کفر کے سروں کو توڑ مروڑ دو۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے، دین میں عیب جوئی کرے، اس کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے اسے قتل کر دیا جائے۔‏‏‏‏ ان کی قسمیں محض بے اعتبار ہیں۔ یہی طریقہ ان کے کفر و عناد سے روکنے کا ہے۔
ابوجہل، عتبہ، شیبہ امیہ وغیرہ یہ سب سردارن کفر تھے۔ ایک خارجی نے سیدنا سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو کہا کہ یہ کفر کے پیشواؤں میں سے ایک ہے آپ نے فرمایا: تو جھوٹا ہے میں تو ان میں سے ہوں جنہوں نے کفر کے پیشواؤں کو قتل کیا تھا۔‏‏‏‏
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس آیت والے اس کے بعد قتل نہیں کئے گئے۔‏‏‏‏ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آیت عام ہے گو سبب نزول کے اعتبار سے اس سے مراد مشرکین قریش ہیں لیکن حکماً یہ انہیں اور سب کو شامل ہے واللہ اعلم۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تمہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہو گی تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دینا واللہ! ان میں سے ہر ایک کا قتل اور ستر لوگوں کے قتل سے مجھے زیادہ پسند ہے اسلیے کہ فرمان الٰہی ہے کفر کے اماموں کو قتل کرو [ابن ابی حاتم]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل