ترجمہ و تفسیر — سورۃ التوبة (9) — آیت 11
فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ ؕ وَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
پس اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو دین میں تمھارے بھائی ہیں، اور ہم ان لوگوں کے لیے آیات کھول کر بیان کرتے ہیں جو جانتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے لگیں تو دین میں تمہارے بھائی ہیں۔ اور سمجھنے والے لوگوں کے لیے ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اب بھی اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکوٰة دیتے رہیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔ ہم تو جاننے والوں کے لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت11) ➊ { فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ …:} یعنی ایمانی اخوت، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ حجرات (۱۰) میں کیا ہے: «اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ» ‏‏‏‏ مومن تو سب بھائی ہی ہیں وہ ان تین چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ ان تین چیزوں سے انھیں اسلامی معاشرے میں وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: یہ جو فرمایا بھائی ہیں حکم شرع میں، اس میں سمجھ لیں کہ جو شخص قرائن سے معلوم ہو کہ ظاہر میں مسلمان ہے اور دل سے یقین نہیں رکھتا تو چاہے اسے حکم ظاہری میں مسلمان گنیں، مگر معتمد اور دوست نہ پکڑیں۔ (موضح) یہ بات پہلے بھی گزری ہے یہاں مزید تاکید ہو گئی کہ نماز اور زکوٰۃ کا محض اقرار ہی اخوت دینی کے لیے کافی نہیں بلکہ عملاً ان کی ادائیگی امت مسلمہ میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے اور مسلمان حاکم پر لازم ہے کہ ان کی عدم ادائیگی پر باز پرس کرے اور سزا دے اور اگر وہ ان کی ادائیگی سے انکار یا ان کا مذاق اڑائیں تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرح انھیں مرتد قرار دے کر ان سے جنگ کی جائے۔
➋ { وَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ:} جاننے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کی نافرمانی کا انجام سمجھتے اور اس کا خوف اپنے دلوں میں رکھتے ہیں، ایسے ہی لوگ ہیں جو اس کی آیات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

11۔ 1 نماز، توحید و رسالت کے اقرار کے بعد، اسلام کا سب سے اہم رکن ہے اللہ کا حق ہے، اس میں اللہ کی عبادت کے مختلف پہلو ہیں۔ اس میں دست بستہ قیام ہے، رکوع و سجود ہے، دعا و مناجات ہے، اللہ کی عظمت و جلالت کا اور اپنی عاجزی و بےکسی کا اظہار ہے۔ عبادت کی یہ ساری صورتیں اور قسمیں صرف اللہ کے لئے خاص ہیں، نماز کے بعد دوسرا اہم فریضہ زکٰوۃ ہے، جس میں عبادتی پہلو کے ساتھ ساتھ خقوق العباد بھی شامل ہیں، زکٰوۃ سے معاشرے کے اور زکٰوہ دینے والے کے قبیلے کے ضرورت مند، مفلس نادار اور معذور و محتاج لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لئے حدیث میں بھی شہادت کے بعد ان ہی دو چیزوں کو نمایاں کر کے بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ' فرمایا ' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں (صحیح بخاری)۔۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے ومن لم یزک فلا صلٰوۃ لہ (حوالہ مذکورہ) جس نے زکوٰۃ نہیں دی اس کی نماز بھی نہیں۔ "

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

11۔ ہاں اگر یہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو وہ تمہارے دینی [10] بھائی ہیں اور ہم اپنے احکام ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں
[10] اسلامی ریاست میں حقوق شہریت کی شرائط:۔
اسی سورۃ کی آیت نمبر 5 میں فرمایا تھا کہ اگر مشرک لوگ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ یعنی اب ان کے اموال اور ان کی جانیں تمہارے ہاتھوں سے محفوظ ہو گئیں اور اس آیت میں فرمایا کہ اگر وہ تینوں شرائط پوری کر لیں تو صرف یہی نہیں کہ ان کے جان و مال محفوظ ہو جائیں گے بلکہ وہ اسلامی برادری کا ایک فرد بن جائیں گے اور انہیں وہ تمام تمدنی، معاشرتی، قانونی اور معاشی حقوق اسی طرح حاصل ہو جائیں گے جس طرح دوسرے مسلمانوں کو حاصل ہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل