ترجمہ و تفسیر — سورۃ التوبة (9) — آیت 1
بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ان مشرکوں کی طرف بریٔ الذمہ ہونے کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری) ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ اوراس کے رسول کی جانب سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ان مشرکوں کے بارے میں جن سے تم نے عہد وپیمان کیا تھا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

یہ پوری کی پوری سورت مدنی ہے جو فتح مکہ کے بعد ۹ھ میں نازل ہوئی۔ چونکہ سورۂ توبہ اور انفال میں ذکر ہونے والے واقعات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، اس لیے ان دونوں سورتوں کو ایک سورت کے حکم میں رکھا گیا ہے اور ان دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی گئی اور یہ سبع طوال (سات لمبی سورتوں) میں سے ساتویں سورت ہے، جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأَوَلَ مِنَ الْقُرْآنِ فَهُوَ حَبْرٌ] جس نے قرآن مجید کی یہ پہلی سات سورتیں حاصل کر لیں وہ بہت بڑا عالم بن گیا۔ [أحمد: 82/6، ح: ۲۴۵۸۵، عن عائشۃ رضی اللہ عنہا]
اس کے کئی نام ہیں جن میں سے ایک توبہ اور دوسرا براء ۃ ہے۔ توبہ اس اعتبار سے کہ اس میں ایک مقام پر بعض اہل ایمان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے اور براء ۃ اس لحاظ سے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براء ت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو سورۃ الفاضحہ یعنی (منافقوں کو) رسوا کرنے والی سورت بھی کہتے ہیں۔ اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی، مفسرین نے اس کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں، مثلاً یہ کہ اس میں مشرکین سے قطع تعلق اور مسلمان نہ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کا حکم ہے اور اہل کتاب کے مسلمان نہ ہونے یا جزیہ نہ دینے کی صورت میں ان سے مسلسل لڑتے رہنے کا حکم ہے وغیرہ، مگر سب سے معقول اور سیدھی سادی بات یہ ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھوائی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں لکھی۔
(آیت 1){ بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ …:} اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان تمام معاہدوں کی تنسیخ کا اعلان فرمایا ہے جو مسلمانوں نے مشرکوں سے کیے تھے۔ منسوخ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین ان عہد ناموں کو بار بار توڑ دیتے تھے اور ان کی شرائط کو پورا نہیں کرتے تھے، خصوصاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد تبوک گئے تو کفار نے سمجھا کہ مسلمان رومیوں کی طاقت کے مقابلے میں فنا ہو جائیں گے، اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے کیے ہوئے کسی عہد کا لحاظ رکھا نہ باہمی رشتہ داری کا، فرمایا: «لَا يَرْقُبُوْنَ فِيْ مُؤْمِنٍ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً» [التوبۃ: ۱۰] یہ لوگ کسی مومن کے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ کسی عہد کا۔اور فرمایا: «اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَيْمَانَهُمْ» ‏‏‏‏ [التوبۃ: ۱۳] کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم دیکھو کہ ان مشرکین کو اچانک حملہ کر کے برباد کرنے کے بجائے پہلے تمام عہد منسوخ کرنے کا اعلان دنیا کے سب سے بڑے مجمع میں کیا گیا۔ ۹ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زیر امارت حج کے دن دس ذوالحجہ یوم نحر کو میدان منیٰ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کی موجودگی میں اعلان ہوا اور کئی آدمی مقرر کیے گئے، جنھوں نے اس مجمع کے ہر مقام پر پہنچ کر بلند آواز کے ساتھ یہ اعلان کیا۔ اس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود حج پر نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس اعلان کے بعد ہی مکہ میں مشرکوں کا داخلہ بند ہوا اور ان کی بے حیائی کی رسمیں ختم ہوئیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

وجہ تسمیہ: اس کے مفسرین نے متعدد نام ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور دو ہیں۔ ایک توبہ اس لئے کہ اس میں بعض مومنین کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ دوسرا براءۃ اس میں مشرکوں سے برات کا اعلان عام ہے۔ یہ قرآن مجید کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم درج نہیں ہے۔ اس کی بھی متعدد وجوہات کتب تفسیر میں درج ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورة انفال اور سورة توبہ ان دونوں کے مضامین میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے یہ سورت گویا سورة انفال کا تتمہ یا بقیہ ہے۔ یہ سات بڑی سورتوں میں ساتویں بڑی سورت ہے جنہیں سبع طوال کہا جاتا ہے۔ 1۔ 1 فتح مکہ کے بعد 9 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکہ میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اعلان کردیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح بخاری)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

[1] جن مشرکوں سے تم نے معاہدے کر رکھے تھے اب اللہ اور اس کا رسول ایسے معاہدوں سے [2] دست بردار ہوتے ہیں
[1] سورۃ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ:۔
سورۃ توبہ کا نام سورۃ برأت بھی ہے جو اس سورۃ کا ابتدائی لفظ ہے۔ یہ سورۃ برأت، سورۃ انفال کے بہت بعد یعنی 9 ہجری میں نازل ہوئی لیکن چونکہ ان دونوں کے مضامین آپس میں بہت حد تک ملتے جلتے ہیں اور یہ سب مضامین کافروں، مشرکوں سے جنگ، معاہدات، صلح اور اسلام کی سربلندی سے متعلق ہدایات و احکام پر مشتمل ہیں لہٰذا ان کو یکجا کر دیا گیا ہے اور ان کے درمیان ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ نہیں لکھی جاتی۔ جو کہ دو سورتوں کی الگ الگ ہونے کی علامت ہے۔ نہ ہی اس سورۃ کی ابتدا میں ﴿بسم الله الرحمن الرحيم﴾ نازل ہوئی۔ نہ ہی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی تھی اور وہی دستور آج تک مصاحف کی کتابت میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
[2] مشرکین سے اعلان برأت:۔
رمضان 8 ہجری میں مکہ فتح ہو گیا تو مسلمانوں پر سے وہ پابندیاں از خود اٹھ گئیں جو مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے بیت اللہ شریف میں داخلہ، عبادات، طواف اور حج و عمرہ پر لگا رکھی تھیں۔ 8 ہجری میں تو مسلمان حج کر ہی نہ سکے۔ کیونکہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین اور طائف سے واپس مدینہ پہنچنے تک اتنا وقت نہ رہا تھا کہ مسلمان حج کے لیے مدینہ سے آتے۔ 9 ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حج کے لیے بھیجا اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو اس قافلہ حج کا امیر مقرر کر دیا۔ ابھی تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشرکوں کے داخلہ پر کوئی پابندی عائد نہ کی گئی تھی۔ لہٰذا اس حج میں مشرکین بھی شریک تھے۔ مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر حج ادا کیا اور مشرکین نے اپنے طریقہ پر۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی روانگی کے بعد اس سورۃ کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کی بنا پر مشرکین سے صرف بیت اللہ شریف میں داخلہ پر ہی پابندی نہ لگائی گئی بلکہ ان سے مکمل برأت کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کی اہمیت کے پیش نظر آپ نے یہ بہتر سمجھا یا مدینہ میں موجود صحابہ کرامؓ نے آپ کو یہ مشورہ دیا کہ یہ اعلان آپ کے کسی قریبی رشتہ دار کی طرف سے ہونا چاہیے جو مشرکوں کی نگاہ میں آپ ہی کے قائم مقام سمجھا جا سکے چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علیؓ کو بھی بھیج دیا کہ وہ حج کے اجتماع عظیم میں ان آیات کا اعلان کر دیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے:
کعبہ کا ننگے طواف کرنا:۔
سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اس حج میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے دسویں تاریخ کو دوسرے منادی کرنے والوں کے ساتھ مجھے بھی بھیجا تاکہ یہ منادی کریں کہ ”اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ہی کوئی ننگا ہو کر طواف کرے۔“ حمید بن عبد الرحمن (ایک راوی) کہتے ہیں کہ (ابو بکر صدیقؓ کو روانہ کرنے کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے سیدنا علیؓ کو بھی روانہ کیا اور انہیں بھی حکم دیا کہ سورۃ برأت (کافروں کو) سنا دیں۔ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں: سیدنا علیؓ نے بھی ہمارے ساتھ منیٰ میں برأت کی منادی کی اور کہا کہ ”اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف کرے۔“ [بخاري۔ كتاب التفسير]
اعلان براءت کی چار دفعات:۔
زید بن یثیَعْ کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا علیؓ سے پوچھا کہ حج میں تمہیں کیا پیغام دے کر بھیجا گیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ چار باتیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص ننگا ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ دوسرے جس کافر کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ صلح ہے وہ مدت مقر رہ تک بحال رہے گا۔ اور تیسرے جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہے یا تو وہ اسلام لے آئیں اور وہ جنت میں داخل ہوں گے یا پھر یہاں سے چلے جائیں اور چوتھے یہ کہ اس سال کے بعد مشرک اور مسلمان (حج میں) جمع نہ ہوں گے۔ [ترمذي۔ ابواب التفسير]
3۔ سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حج اکبر کے دن کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قربانی کا دن“ [ترمذي۔ ابواب التفسير]
صاف دل سے معاہدہ کرنے والے مشرک قبائل کو رعایت:۔
چنانچہ دس ذی الحجہ کو حج اکبر یعنی یوم نحر کے دن یہ اعلان پہلے سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے منیٰ کے مقام پر کیا۔ پھر اس کے بعد سیدنا علیؓ نے کیا اور اس کی اہم دفعات چار تھیں۔
(1) آئندہ کبھی کوئی شخص ننگا ہو کر طواف نہ کر سکے گا۔ ایسی فحاشی کعبہ کے اندر کسی صورت پر برداشت نہیں کی جا سکتی۔ جبکہ مشرک ننگا ہو کر طواف کرنے کو اپنے خیال کے مطابق بہتر سمجھتے اور کہتے کہ اس میں زیادہ انکساری پائی جاتی ہے۔
(2) مشرکین کا کعبہ کا متولی ہونا تو درکنار، وہ اس سال کے بعد کعبہ کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت نمبر 28 میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
(3) جن مشرکوں سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح نہیں انہیں چار ماہ کی مدت دی جاتی ہے۔ اس مدت میں وہ خوب سمجھ لیں کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کو تیار ہیں یا یہ ملک چھوڑ کر نکل جانا چاہتے ہیں یا اسلام لانا چاہتے ہیں اور اگر وہ اسلام لے آئیں تو وہ بھی ان شاء اللہ جنت میں داخل ہوں گے اس دفعہ میں وہ مشرک قبائل بھی شامل ہیں جو صلح کا معاہدہ تو کر لیتے تھے مگر صلح کی شرائط ہی ایسی طے کرتے تھے کہ ان کے لیے فتنہ اور نقض عہد کی گنجائش باقی رہے یعنی ایسے قبائل جن کی طرف سے مسلمانوں کو عہد شکنی یا فتنہ انگیزی کا خطرہ تھا ان کا ایسا عہد بھی اس اعلان کے ذریعہ ختم کر دیا گیا۔ جیسا کہ سورۃ انفال کی آیت نمبر 58 میں حکم دیا گیا ہے۔
(4) اور جن مشرک قبائل نے صدق دل سے مسلمانوں سے معاہدہ امن کر رکھا ہے انہوں نے نہ کبھی بد عہدی کی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو ان کی طرف سے کچھ خطرہ ہے۔ ایسے مشرک قبائل کو معاہدہ کے اختتام تک مہلت دی گئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو دوسرے مشرک قبائل کے ساتھ ہو گا اور ایسے صاف نیت قبائل صرف تین تھے: بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جنہوں نے نہ خود عہد شکنی کی تھی اور نہ ہی علی الاعلان یا درپردہ مسلمانوں کے خلاف کسی دوسرے کی حمایت کی تھی۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

باب
یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہے۔ بخاری شریف میں ہے سب سے آخر میں آیت «يَسْتَفْتُونَكَ» ۱؎ [4-النساء: 176]‏‏‏‏ اتری۔ اور سب سے آخری سورت سورۃ براۃ اتری ہے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4654]‏‏‏‏
اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر کے اسے قرآن میں نہیں لکھی تھی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے؟ جو آپ نے سورۃ الانفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورۃ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان «‏‏‏‏بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ» ‏‏‏‏ نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھا؟
تو آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ ذکر ہے سورۃ الانفال مدینہ منورہ میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی اور سورۃ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی۔
بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور اکرم صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتوں کو متصل لکھا اور ان کے درمیان «‏‏‏‏بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ» ‏‏‏‏ نہیں لکھی اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ ۱؎ [سنن ابوداود:786،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏
اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا۔ مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آ کر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ مکرمہ روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں۔
آپ کے پیچھے پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں، جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آ رہا ہے، ان شاءاللہ۔
پس فرمان ہے کہ یہ بے تعلقی ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں: " یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق ہے جن سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا "۔
جیسے فرمان ہے کہ «‏‏‏‏فَأَتِمّوا إِلَيهِم عَهدَهُم إِلىٰ مُدَّتِهِم» ‏‏‏‏ ۱؎ [9- التوبہ: 4]‏‏‏‏ ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث میں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں۔ " ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16384]‏‏‏‏
گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ " جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم ختم تک پچاس دن "۔
اس مدت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کر لیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آ جائیں۔
یہ واقعہ ٩ ھ کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں۔
آپ نے ان کے ڈیروں میں، گھروں میں، منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16376]‏‏‏‏ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔
تبوک سے آ کر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا اور ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ " چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جوہر دکھائے گی " بیس دن ذی الحجہ کے، محرم پورا، صفر پورا، اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16377]‏‏‏‏
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " شوال محرم تک کی ڈھیل تھی " لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل