سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے پیغمبر) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 1) ➊ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى: ”تَسْبِيْحٌ“} کا معنی ہے ”ہربرائی سے پاک کرنا۔“ رب الاعلیٰ کے نام کو پاک کرنے کے حکم کے مفہوم میں کئی چیزیں شامل ہیں، پہلی یہ کہ {”سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰی“} کہو۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب {” سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى “} پڑھتے توکہتے: [سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰي] [أبو داوٗد، الصلاۃ، باب الدعاء في الصلاۃ: ۸۸۳، وصححہ الألباني] ”پاک ہے میرا رب جو سب سے بلندہے۔“ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اس حکم پر عمل کے لیے {”سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰي“} کم از کم تین دفعہ پڑھتے تھے۔ [دیکھیے نسائي، التطبیق، باب نوع آخر: ۱۱۳۴، صحیح] دوسری یہ کہ اپنے رب کو ہر قسم کے نقص، عیب، کمزوری اور کسی بھی شریک سے پاک سمجھو اور اس کا اعلان کرتے رہو، تاکہ مشرکین اور باطل عقیدہ لوگوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے۔ تیسری یہ کہ رب تعالیٰ کے نام کی تعظیم کرتے رہو، اسے ایسے طریقے سے یا ایسی جگہ یا ایسے الفاظ میں یاد نہ کرو جو اس کی شان کے لائق نہ ہو، یا جس سے اس کی بے ادبی ہوتی ہو یا استہزا کا پہلو نکلتا ہویا اس کے ساتھ کسی کے شریک ٹھہرائے جانے کا اندیشہ ہو۔ اس کے لیے سب سے زیادہ سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس کے لیے وہی نام استعمال کیے جائیں جو خود اس نے اپنے لیے استعمال کیے ہیں۔ چوتھی یہ کہ اللہ کا نام کسی مخلوق پر نہ بولو، مثلاً عبدالرحمن کو رحمان مت کہو۔ اگر لفظ مشترک ہو تو مخلوق پر اس انداز سے نہ بولو جس سے خالق کو یاد کرنا چاہیے۔
➋ ”اپنے رب کے نام کی تسبیح کر “ یا ” اپنے رب کی تسبیح کر“ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، کیونکہ ” رب“ بھی اس کا نام ہے۔ لفظ ”نام“ اس لیے بڑھایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حقیقت اور کنہ تک تو پہنچ ہی نہیں سکتے، تمھاری رسائی اس کے نام تک ہے، سو اس کی تسبیح کرتے رہو۔ بعض نے فرمایا کہ جب نام کی تسبیح ضروری ٹھہری تو اس کی ذات تو بالاولیٰ تسبیح کی حق دار ہے۔
➋ ”اپنے رب کے نام کی تسبیح کر “ یا ” اپنے رب کی تسبیح کر“ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، کیونکہ ” رب“ بھی اس کا نام ہے۔ لفظ ”نام“ اس لیے بڑھایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی حقیقت اور کنہ تک تو پہنچ ہی نہیں سکتے، تمھاری رسائی اس کے نام تک ہے، سو اس کی تسبیح کرتے رہو۔ بعض نے فرمایا کہ جب نام کی تسبیح ضروری ٹھہری تو اس کی ذات تو بالاولیٰ تسبیح کی حق دار ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اپنے بہت ہی بلند اللہ کے نام کی پاکیزگی بیان کر (1)
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
مسند احمد میں ہے { عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت «فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ» ۱؎ [56-الواقعة:74] اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے تم اپنے رکوع میں کر لو“ جب «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى» ۱؎ [87-الأعلى:1] اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اپنے سجدے میں کر لو“ } ۱؎ [سنن ابوداود:869،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ابوداؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى» ۱؎ [87-الأعلى:1] پڑھتے تو کہتے «سُبْحَان رَبِّي الْأَعْلَى» } ۱؎ [سنن ابوداود:883،قال الشيخ الألباني:صحیح] سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی ہے۔
اور آپ جب «لَا أُقْسِم بِيَوْمِ الْقِيَامَة» ۱؎ [75-القيامة:1] پڑھتے اور آخری آیت «أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ» ۱؎ [75-القيامة:40] پر پہنچتے تو فرماتے «سُبْحَانك وَبَلَى» ۱؎ [75-القيامة:40]
اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے ’ اپنے بلندیوں والے، پرورش کرنے والے، اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی، انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے ‘۔
جیسے اور جگہ ہے «رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ» ۱؎ [20-طه:50] یعنی ’ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی ‘۔
ابوداؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى» ۱؎ [87-الأعلى:1] پڑھتے تو کہتے «سُبْحَان رَبِّي الْأَعْلَى» } ۱؎ [سنن ابوداود:883،قال الشيخ الألباني:صحیح] سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی ہے۔
اور آپ جب «لَا أُقْسِم بِيَوْمِ الْقِيَامَة» ۱؎ [75-القيامة:1] پڑھتے اور آخری آیت «أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ» ۱؎ [75-القيامة:40] پر پہنچتے تو فرماتے «سُبْحَانك وَبَلَى» ۱؎ [75-القيامة:40]
اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے ’ اپنے بلندیوں والے، پرورش کرنے والے، اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی، انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے ‘۔
جیسے اور جگہ ہے «رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ» ۱؎ [20-طه:50] یعنی ’ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی ‘۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا ۱؎ [سنن ترمذي:2134،قال الشيخ الألباني:صحیح] جس میں ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:2653]
بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں مؤخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں، یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا، گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں۔
بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں مؤخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں، یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا، گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں۔