ترجمہ و تفسیر — سورۃ الطارق (86) — آیت 1
وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی!
ترجمہ فتح محمد جالندھری
آسمان اور رات کے وقت آنے والے کی قسم
ترجمہ محمد جوناگڑھی
قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 1تا4) ➊ {وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ …: طَرَقَ يَطْرُقُ} (ن) کا اصل معنی زور سے مارنا ہے جس سے آواز پیدا ہو۔ {مِطْرَقَةٌ} (ہتھوڑا) اور{طَرِيْقٌ} (راستہ) اسی سے مشتق ہیں، کیونکہ راستے پر چلنے والوں کے قدم زور سے پڑتے ہیں تو آواز دیتے جاتے ہیں۔{ الطَّارِقِ } رات کو آنے والے کو کہتے ہیں، کیونکہ عام طور پر اسے دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ { النَّجْمُ الثَّاقِبُ } میں الف لام جنس کے لیے ہے، اس لیے اگرچہ لفظ واحد ہے مگر اس میں تمام ستارے آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو پیدا کرنے کا ایک مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ شیطانوں سے آسمان دنیا کی حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ (دیکھیے صافات: ۶، ۷) { اِنْ } نفی کے معنی میں ہے اور { لَمَّا } بمعنی {إِلَّا} ہے۔
➋ قسم کسی بات کی تاکید کے لیے اٹھائی جاتی ہے اور عموماً اس بات کی شہادت ہوتی ہے جس کے لیے قسم اٹھائی گئی ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور چمک دار ستارے کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ہر جان کے اوپر ایک حفاظت کرنے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان اور ستاروں کا یہ عظیم الشان سلسلہ جو بغیر کسی سہارے کے قائم ہے اور جس میں کوئی خرابی یا حادثہ پیش نہیں آتا، اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ جس قادر مطلق نے ان کی حفاظت کا انتظام کررکھا ہے وہی ہر جان کی بھی حفاظت کر رہا ہے اور ہر چیز کا اصل حافظ وہی ہے، اگر وہ ایک لمحہ کے لیے اپنی توجہ ہٹالے تو سب کچھ فنا ہو جائے۔ جس طرح اس نے شیطانوں سے آسمانوں کی حفاظت ستاروں کے ذریعے سے کی ہے، اسی طرح آفات سے حفاظت کے لیے ہر شخص پر باری باری آنے والے فرشتے مقرر کیے ہیں (دیکھیے رعد: ۱۱) اور اس کے اعمال کو لکھ کر محفوظ کرنے کے لیے کراماً کاتبین مقرر کیے ہیں۔ دیکھیے سورۂ انفطار (۱۰ تا ۱۳)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

قسم ہے آسمان کی اور اندھیرے میں روشن ہونے والے کی۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

تخلیق انسان ٭٭
اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور ان کے روشن ستاروں کی قسم کھاتا ہے «طارق» کی تفسیر چمکتے ستارے سے کی ہے وجہ یہ ہے کہ دن کو چھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہو جاتے ہیں۔
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ «نَهَى أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ طُرُوقًا» { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی اپنے گھر رات کے وقت بے خبر آ جائے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:1801]‏‏‏‏ یہاں بھی لفظ «طُرُوقً» ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا «إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ» میں بھی «طَارِقً» کا لفظ آیا ہے۔ ۱؎ [مسند احمد:419/3:حسن]‏‏‏‏
«ثَّاقِبُ» کہتے ہیں چمکیلے اور روشن ستارے کو جو شیطان پر گرتا ہے اور اسے جلا دیتا ہے، ہر شخص پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہے جو اسے آفات سے بچاتا ہے۔
جیسے اور جگہ ہے «لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ» ۱؎ [13-الرعد:11]‏‏‏‏ الخ یعنی ’ آگے پیچھے سے باری باری آنے والے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے بندے کی حفاظت کرتے ہیں ‘۔
انسان کی ضعیفی کا بیان ہو رہا ہے کہ دیکھو تو اس کی اصل کیا ہے اور گویا اس میں نہایت باریکی کے ساتھ قیامت کا یقین دلایا گیا ہے کہ جو ابتدائی پیدائش پر قادر ہے وہ لوٹانے پر قادر کیوں نہ ہو گا۔
جیسے فرمایا «وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ» ۱؎ [30-الروم:27]‏‏‏‏ الخ یعنی ’ جس نے پہلے پیدا کیا وہ ہی دوبارہ لوٹائے گا اور یہ اس پر بہت ہی آسان ہے ‘۔
انسان اچھلنے والے پانی یعنی عورت، مرد کی منی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ سے اور عورت کی چھاتی سے نکلتی ہے، عورت کا یہ پانی زرد رنگ کا اور پتلا ہوتا ہے اور دونوں سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے۔
«تَّرَائِبُ» کہتے ہیں ہار کی جگہ کو کندھوں سے لے کر سینے تک کو بھی کہا گیا ہے اور نرخرے سے نیچے کو بھی کہا گیا ہے اور چھاتیوں سے اوپر کے حصہ کو بھی کہا گیا ہے اور نیچے کی طرف چار پسلیوں کو بھی کہا گیا ہے اور دونوں چھاتیوں اور دونوں پیروں اور دونوں آنکھوں کے درمیان کو بھی کہا گیا ہے، دل کے نچوڑ کو بھی کہا گیا ہے، سینہ اور پیٹھ کے درمیان کو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کے لوٹانے پر قادر ہے یعنی نکلے ہوئے پانی کو اس کی جگہ واپس پہنچا دینے پر اور یہ مطلب کہ اسے دوبارہ پیدا کر کے آخرت کی طرف لوٹانے پر بھی پچھلا قول ہی اچھا ہے۔
اور یہ دلیل کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے پھر فرمایا کہ قیامت کے دن پوشیدگیاں کھل جائیں گی راز ظاہر ہو جائیں گے بھید آشکار ہو جائیں گے۔
{ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر غدار کی رانوں کے درمیان اس کے غدار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان ہو جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے۱؎ [صحیح بخاری:6178]‏‏‏‏
اس دن نہ تو خود انسان کو کوئی قوت حاصل ہو گی نہ اس کا کوئی مددگار کوئی اور کھڑا ہو گا یعنی نہ تو خود اپنے آپ کو عذابوں سے بچا سکے گا نہ کوئی اور ہو گا جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل