تاکہ جان لے کہ انھوں نے واقعی اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں اور اس نے ان تمام چیزوں کااحاطہ کر رکھا ہے جو ان کے پاس ہیں اور ہر چیز کو گن کر شمار کر رکھا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تاکہ معلوم فرمائے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے ہیں اور (یوں تو) اس نے ان کی سب چیزوں کو ہر طرف سے قابو کر رکھا ہے اور ایک ایک چیز گن رکھی ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے اللہ تعالیٰ نے ان کے آس پاس (کی تمام چیزوں) کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہر چیز کی گنتی شمار کر رکھا ہے
(آیت 28) ➊ {لِيَعْلَمَاَنْقَدْاَبْلَغُوْا …:} اس سارے انتظام کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جان لے کہ رسولوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچا دیے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر اس چھوٹی اور بڑی چیز کا احاطہ کر رکھا ہے جو ان کے پاس ہے اور ہر ہر چیز کو گن کر شمار کر رکھا ہے۔ رسولوں کی مجال نہیں(خواہ وہ فرشتے ہوں جیسے جبریل علیہ السلام یا انسان ہوں جیسے تمام رسول علیھم السلام) کہ اللہ کے پیغامات میں ایک لفظ کی بھی کمی بیشی کر سکیں۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ تو پہلے ہی ہر چیز کا علم رکھتا ہے، پھر{”لِيَعْلَمَ“} (تاکہ وہ جان لے) فرمانے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک وہ پہلے ہی سب کچھ جانتا ہے کہ اس طرح ہو گا، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ سب انتظام اس لیے کیا ہے تاکہ رسول اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیں اور اللہ تعالیٰ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے ہیں۔ ➋ بعض لوگ ان آیات سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول بھی عالم الغیب ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ انھیں غیب پر مطلع کرتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے اور انبیاء کا علم غیب عطائی یعنی اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے: «قُلْلَّايَعْلَمُمَنْفِيالسَّمٰوٰتِوَالْاَرْضِالْغَيْبَاِلَّااللّٰهُ»[النمل: ۶۵]”کہہ دیجیے کہ آسمانوں میں اور زمین میں جو بھی ہے اللہ کے علاوہ غیب نہیں جانتا۔“ یعنی عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اگر وہ کسی رسول کو کوئی بات بتا دے تو اس سے وہ عالم الغیب نہیں بن جاتا، کیونکہ ایک تو رسولوں کو صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے جتنی بتائی جاتی ہے، وہ ہر بات نہیں جانتے اور یہ عالم الغیب کی شان کے خلاف ہے کہ اسے کچھ خبریں معلوم ہوں اور کچھ معلوم نہ ہوں۔ دوسرے جب کسی کو غیب کی کوئی بات بتانے سے معلوم ہو تو وہ عالم الغیب نہیں ہوتا، ورنہ ہم سب عالم الغیب ہو جائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی جو باتیں بتائیں وہ لوگوں کو پہنچانے کے لیے بتائیں، قیامت، جنت، دوزخ اور حوض کوثر وغیرہ یہ سب غیب کی باتیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے ہمیں معلوم ہیں، تو کیا ہم بھی عالم الغیب ہیں؟ ظاہر ہے ایسا نہیں، سو حق یہی ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے، دوسرا کوئی عالم الغیب نہیں، نہ ذاتی نہ عطائی۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
28۔ 1 لیعلم۔ میں ضمیر کا مرجع کون ہے؟ بعض کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاکہ آپ جان لیں کہ آپ سے پہلے رسولوں نے بھی اللہ کا پیغام اسی طرح پہنچایا جس طرح آپ نے پہنچایا۔ بعض نے فرشتوں کو بنایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ کا پیغام نبیوں تک پہنچایا۔ اور بعض نے اللہ کو مرجع بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی فرشتوں کے ذریعے حفاظت فرماتا ہے۔ 28۔ 2 فرشتوں کے پاس کی یا پیغمبروں کے پاس کی۔ 28۔ 3 کیونکہ وہی عالم الغیب ہے، جو ہوچکا اور آئندہ ہوگا، سب کا اس نے شمار کر رکھا ہے۔ یعنی اسکے علم میں ہے۔