وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ نُّعۡجِزَ اللّٰہَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَنۡ نُّعۡجِزَہٗ ہَرَبًا ﴿ۙ۱۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور یہ کہ ہم نے یقین کر لیا کہ بے شک ہم کبھی اللہ کو زمین میں عاجز نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی بھاگ کر کبھی اسے عاجز کر سکیں گے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور یہ کہ ہم نے یقین کرلیا ہے کہ ہم زمین میں (خواہ کہیں ہوں) خدا کو ہرا نہیں سکتے اور نہ بھاگ کر اس کو تھکا سکتے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو زمین میں ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 13،12) {وَ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنْ لَّنْ نُّعْجِزَ اللّٰهَ …:} مشرک قومیں جنوں کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھتی ہیں اور انھیں غیب دان جانتی ہیں مگر جن خود اقرار کر رہے ہیں کہ ہم نے سمجھ لیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں پکڑنا چاہے تو نہ ہم زمین میں کہیں چھپ کر اسے عاجز کرسکتے ہیں کہ وہ ہمیں پکڑ نہ سکے اور نہ کہیں بھاگ کر، غرض پھر کسی صورت ہم اس سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بالکل بے بس ہونے کے اسی عقیدے کا نتیجہ ہے کہ جونہی ہم نے ہدایت کی بات سنی تو فوراً ایمان لے آئے۔ {” بَخْسًا وَّ لَا رَهَقًا “} نقصان یہ کہ جو نیکیاں کی ہیں ان میں کمی کر دی جائے اور زیادتی یہ کہ جو گناہ نہیں کیے وہ تھوپ دیے جائیں۔ ان آیات میں بھی مومن جن اپنے بھائیوں کو نصیحت کر رہے ہیں کہ جس ذات عالی سے نہ بھاگ سکتے ہو اور نہ چھپ سکتے ہو اس پر ایمان لے آؤ، اسی میں تمھاری خیریت ہے، پھر وہ ایسا مہربان ہے کہ جو اس پر ایمان لے آئے اسے نہ نقصان کا خوف ہے نہ زیادتی کا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
جنات میں بھی کافر اور مسلمان موجود ہیں ٭٭
جنات اپنی قوم کا اختلاف بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”ہم میں نیک بھی ہیں اور بد بھی ہیں ہم مختلف راہوں پر لگے ہوئے تھے۔“ اعمش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ایک جن ہمارے پاس آیا کرتا تھا، میں نے ایک مرتبہ اس سے پوچھا کہ تمام کھانوں میں سے تمہیں کون سا کھانا پسند ہے؟ اس نے کہا چاول۔ میں نے لا کر دیئے تو دیکھا کہ لقمہ برابر اٹھ رہا ہے لیکن کھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ میں نے پوچھا جو خواہشات ہم میں ہیں کیا تم بھی ہیں؟ اس نے کہا ہاں، میں نے پھر پوچھا کہ رافضی تم میں کیسے گنے جاتے ہیں؟ کہا بدترین۔ حافظ ابوالحجاج مذنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے۔
ابن عساکر میں ہے عباس بن احمد دمشقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے رات کے وقت ایک جن کو اشعار میں یہ کہتے سنا کہ دل اللہ کی محبت سے لبریز ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں اس کی جڑیں جم گئی ہیں اور اللہ کی محبت میں حیران و پریشان ادھر ادھر پھر رہے ہیں جو ان کا رب ہے انہوں نے مخلوق سے تعلقات کاٹ کر اپنے تعلقات اللہ سے وابستہ کر لیے ہیں۔
پھر ہم کہتے ہیں ہمیں معلوم ہو چکا کہ اللہ کی قدرت ہم پر حاکم ہے ہم اس سے نہ بھاگ کر بچ سکیں نہ کسی اور طرح اسے عاجز کر سکیں۔ اب فخریہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت نامے کو سنتے ہی اس پر ایمان لا چکے ہیں، فی الواقع ہے بھی یہ فخر کا مقام۔ اس سے زیادہ شرف اور فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب کا کلام فوری اثر کرے۔
ابن عساکر میں ہے عباس بن احمد دمشقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے رات کے وقت ایک جن کو اشعار میں یہ کہتے سنا کہ دل اللہ کی محبت سے لبریز ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں اس کی جڑیں جم گئی ہیں اور اللہ کی محبت میں حیران و پریشان ادھر ادھر پھر رہے ہیں جو ان کا رب ہے انہوں نے مخلوق سے تعلقات کاٹ کر اپنے تعلقات اللہ سے وابستہ کر لیے ہیں۔
پھر ہم کہتے ہیں ہمیں معلوم ہو چکا کہ اللہ کی قدرت ہم پر حاکم ہے ہم اس سے نہ بھاگ کر بچ سکیں نہ کسی اور طرح اسے عاجز کر سکیں۔ اب فخریہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت نامے کو سنتے ہی اس پر ایمان لا چکے ہیں، فی الواقع ہے بھی یہ فخر کا مقام۔ اس سے زیادہ شرف اور فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب کا کلام فوری اثر کرے۔