ترجمہ و تفسیر — سورۃ الجن (72) — آیت 1
قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہہ دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر سنا تو انھوں نے کہا کہ بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (اس کتاب کو) سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ سوق عکاظ کی طرف جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے، (یہ اس وقت کی بات ہے جب) شیاطین اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی اور (جب وہ اوپر خبریں سننے کے لیے گئے تو) ان پر انگارے پھینکے گئے۔ وہ شیطان(جب آسمان سے خبریں نہ سن سکے اور) اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو انھوں نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی ہے اور ہم پر انگارے پھینکے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا: تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ کی وجہ کوئی نئی پیدا ہونے والی چیز ہی ہو سکتی ہے، اس لیے تم زمین کے مشارق و مغارب کا سفر کرکے دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ بنی ہے۔ تو وہ لوگ جو تہامہ کی طرف روانہ ہوئے تھے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب آپ نخلہ میں تھے اور سوق عکاظ کا ارادہ رکھتے تھے۔ آپ اس وقت اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، جب انھوں نے قرآن سنا تو کان لگا کر سننے لگے اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہی وہ چیز ہے جو تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ بنی ہے۔ اس موقع پر جب وہ اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو انھوں نے کہا: اے ہماری قوم! «‏‏‏‏اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا (1) يَّهْدِيْۤ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ وَ لَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا» ‏‏‏‏ [الجن: 2,1] بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا، جو سیدھی راہ کی طرف لے جاتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم کبھی کسی کو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں کریں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیات نازل فرمائیں: «‏‏‏‏قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ» اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔ [بخاري، الأذان، باب الجہر بقراءۃ صلاۃ الصبح: ۷۷۳۔ مسلم: ۴۴۹]
(آیت 2،1) ➊ {قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ …:} اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنوں کا قرآن سن کر ایمان لانا اور ان کی آپس کی ساری گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے معلوم ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: [مَا قَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْجِنِّ وَ مَا رَآهُمْ] [مسلم، الصلاۃ، باب الجھر بالقراءۃ في الصبح…: ۴۴۹] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ جنوں کے سامنے قرآن پڑھا اور نہ انھیں دیکھا (وہ تو آپ کے پاس اس وقت آئے جب آپ نخلہ میں تھے اور انھوں نے اس موقع پر قرآن سنا)۔ ہاں، اس کے بعد کئی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنوں سے ملاقات ہوئی اور آپ نے انھیں قرآن سنایا اور پڑھایا، جیسا کہ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے غائب رہے، صحابہ نے وہ رات سخت پریشانی میں گزاری، تلاش کرتے کرتے وہ آپ سے اس وقت ملے جب آپ حرا کی طرف سے آرہے تھے۔ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: [أَتَانِيْ دَاعِي الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ] میرے پاس جنوں کا دعوت دینے والا آیا تھا، چنانچہ میں اس کے ساتھ گیا اور انھیں قرآن پڑھ کر سنایا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پھر آپ ہمیں لے گئے اور ہمیں ان کے نشان اور ان کی آگوں کے نشان دکھائے۔ [مسلم، الصلاۃ، باب الجہر بالقراءۃ في الصبح…: ۴۵۰] اسی طرح ایک دفعہ آپ نے جنوں کے سامنے سورۃ رحمان پڑھی اور وہ: «‏‏‏‏فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ» ‏‏‏‏ (تو تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے) پرجواب دیتے رہے: [لاَ بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ] [ترمذي، التفسیر، باب ومن سورۃ الرحمٰن: ۳۲۹۱، وقال الألباني صحیح] ہم تیری کسی بھی نعمت کو نہیں جھٹلاتے اے ہمارے رب! اور تیرے ہی لیے سب تعریف ہے۔
➋ ان آیات میں کفار قریش کو شرم دلائی گئی ہے کہ دیکھو اتنی مدت تک سننے کے باوجود تم پر قرآن کا کچھ اثر نہیں ہوا، نہ تم شرک کی نجاست سے پاک ہو سکے، جب کہ یہ اتنی اعلیٰ، مؤثر اور عجیب کتاب ہے کہ جنوں کی اس جماعت نے اسے سنتے ہی ایمان قبول کر لیا اور ہمیشہ کے لیے شرک چھوڑنے کا اعلان کر دیا، حالانکہ جنوں کی سرکشی مشہور و معروف ہے۔
➌ یہ بھی معلوم ہوا کہ جن وہ زبانیں جانتے ہیں جو انسانوں میں بولی جاتی ہیں، کم از کم وہ جن تو عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کی باریکیوں تک کو اتناسمجھتے تھے کہ انھوں نے قرآن کو عجیب قرار دیا اور فوراً اس پر ایمان لے آئے۔
➍ جن بھی انسانوں کی طرح شریعت کے مخاطب ہیں اور ان کے رسول بھی وہی ہیں جو انسانوں کے ہیں۔ قرآن مجید یا حدیث میں جنوں میں سے کسی پیغمبر کا ذکرنہیں آیا، اس کے برعکس زیر تفسیر سورت میں صاف ذکر ہے کہ جن قرآن پر ایمان لائے اور سورۂ احقاف میں ہے کہ انھوں نے کہا، ہم نے ایک ایسی کتاب سنی جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی ہے۔ (دیکھیے احقاف: ۳۰) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کو اپنا رسول مانتے تھے۔ سورۂ رحمان کی تمام آیات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنوں کے سامنے انھیں پڑھنا اور ان کا جواب دینا بھی اس بات کی دلیل ہے۔ سورۂ انبیاء (8،7) سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
➎ جنوں میں شرک کرنے والے بھی موجود ہیں، جیسا کہ یہ جن مشرک تھے اور انھوں نے قرآن مجید سننے کے بعد شرک چھوڑا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی آیات پڑھ رہے تھے جس سے انھیں شرک کی خرابی معلوم ہوئی۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت (1) نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

جنات پر قرآن حکیم کا اثر ٭٭
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اپنی قوم کو اس واقعہ کی اطلاع دو کہ جنوں نے قرآن سنا اسے سچا مانا اس پر ایمان لائے اور اس کے مطیع بن گئے، تو فرماتا ہے کہ ’ اے نبی! تم کہو میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور اپنی قوم میں جا کر خبر دی کہ آج ہم نے عجیب و غریب کتاب سنی جو سچا اور نجات کا راستہ بتاتی ہے، ہم تو اسے مان چکے، ناممکن ہے کہ اب ہم اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت کریں ‘۔
یہی مضمون آیتوں میں گزر چکا ہے «وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ» ۱؎ [46-الأحقاف:29]‏‏‏‏ الخ، یعنی ’ جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف لوٹایا کہ وہ قرآن سنیں ‘ اور اس کی تفسیر احادیث سے وہیں ہم بیان کر چکے ہیں یہاں لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
پھر یہ جنات اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ہمارے رب کے کام قدرت والے، اس کے احکام بہت بلند و بالا، بڑا ذیشان اور ذی عزت ہے، اس کی نعمتیں، قدرتیں اور مخلوق پر مہربانیاں بہت باوقعت ہیں اس کی جلالت و عظمت بلند پایہ ہے اس کا جلال و اکرام بڑھا چڑھا ہے اس کا ذکر بلند رتبہ ہے اس کی شان اعلیٰ ہے۔ ایک روایت میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ «جَدُّ» کہتے ہیں باپ کو۔ اگر جنات کو یہ علم ہوتا کہ انسانوں میں «جَدُّ» ہوتا ہے تو وہ اللہ کی نسبت یہ لفظ نہ کہتے، یہ قول سنداً قوی ہے لیکن کلام بنتا نہیں اور کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا ممکن ہے اس میں کچھ کلام چھوٹ گیا ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اللہ تعالیٰ کی یکتائی پر جنات کی گواہی ٭٭
پھر اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ اللہ اس سے پاک اور برتر ہے کہ اس کی بیوی ہو یا اس کی اولاد ہو، پھر کہتے ہیں کہ ہمارا بیوقوف یعنی شیطان اللہ پر جھوٹ تہمت رکھتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مراد اس سے عام ہو یعنی جو شخص اللہ کی اولاد اور بیوی ثابت کرتا ہے بے عقل ہے، جھوٹ بکتا ہے، باطل عقیدہ رکھتا ہے اور ظالمانہ بات منہ سے نکالتا ہے۔
جنات کے بہکنے کا سبب ٭٭
پھر فرماتے ہیں کہ ہم تو اسی خیال میں تھے کہ جن و انس اللہ پر جھوٹ نہیں باندھ سکتے لیکن قرآن سن کر معلوم ہوا کہ یہ دونوں جماعتیں رب العالمین پر تہمت رکھتی تھیں، دراصل اللہ کی ذات اس عیب سے پاک ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ جنات کے زیادہ بہکنے کا سبب یہ ہوا کہ وہ دیکھتے تھے کہ انسان جب کبھی کسی جنگل یا ویرانے میں جاتے ہیں تو جنات کی پناہ طلب کیا کرتے ہیں، جیسے کہ جاہلیت کے زمانہ کے عرب کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی پڑاؤ پر اترتے تو کہتے کہ اس جنگل کے بڑے جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اور سمجھتے تھے کہ ایسا کہہ لینے کے بعد تمام جنات کے شر سے ہم محفوظ ہو جاتے ہیں جس طرح کسی شہر میں جاتے تو وہاں کے بڑے رئیس کی پناہ لے لیتے تاکہ شہر کے اور دشمن لوگ انہیں ایذاء نہ پہنچائیں۔
جنوں نے جب یہ دیکھا کہ انسان بھی ہماری پناہ لیتے ہیں تو ان کی سرکشی اور بڑھ گئی اور انہوں نے اور بری طرح انسانوں کو ستانا شروع کیا اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جنات نے یہ حالت دیکھ کر انسانوں کو اور خوف زدہ کرنا شروع کیا اور انہیں طرح طرح سے ستانے لگے۔
پہلے جنات انسانوں سے ڈرتے تھے ٭٭
دراصل جنات انسانوں سے ڈرا کرتے تھے جیسے کہ انسان جنوں سے بلکہ اس سے بھی زیادہ یہاں تک کہ جس جنگل بیابان میں انسان جا پہنچتا تھا وہاں سے جنات بھاگ کھڑے ہوتے تھے لیکن جب سے اہل شرک نے خود ان سے پناہ مانگنی شروع کی اور کہنے لگے کہ اس وادی کے سردار جن کی پناہ میں ہم آتے ہیں اس سے کہ ہمیں ہماری اولاد و مال کو کوئی ضرر نہ پہنچے، اب جنوں نے سمجھا کہ یہ تو خود ہم سے ڈرتے ہیں تو ان کی جرات بڑھ گئی اور اب طرح طرح سے ڈرانا ستانا اور چھیڑنا انہوں نے شروع کیا، وہ گناہ، خوف، طغیانی اور سرکشی میں اور بڑھ گئے۔
کردم بن ابوسائب انصاری کہتے ہیں میں اپنے والد کے ہمراہ مدینہ سے کسی کام کے لیے باہر نکلا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو چکی تھی اور مکہ شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت پیغمبر ظاہر ہو چکے تھے رات کے وقت ہم ایک چرواہے کے پاس جنگل میں ٹھہر گئے آدھی رات کے وقت ایک بھیڑیا آیا اور بکری اٹھا کر لے بھاگا، چرواہا اس کے پیچھے دوڑا اور پکار کر کہنے لگا اے اس جنگل کے آباد رکھنے والے تیری پناہ میں آیا ہوا ایک شخص لٹ گیا، ساتھ ہی ایک آواز آئی حالانکہ کوئی شخص نظر نہ آتا تھا کہ اے بھیڑیئے اس بکری کو چھوڑ دے، تھوڑی دیر میں ہم نے دیکھا کہ وہی بکری بھاگی بھاگی آئی اور ریوڑ میں مل گئی اسے زخم بھی نہیں لگا تھا یہی بیان اس آیت میں ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکہ میں اتری کہ ’ بعض لوگ جنات کی پناہ مانگا کرتے تھے ‘۔ ۱؎ [طبرانی کبیر:191/19،قال الشيخ زبیرعلی زئی:ضعیف]‏‏‏‏
ممکن ہے کہ یہ بھیڑیا بن کر آنے والا بھی جن ہی ہو اور بکری کے بچے کو پکڑ کر لے گیا ہو اور چرواہے کی اس دہائی پر چھوڑ دیا ہو تاکہ چرواہے کو اور پھر اس کی بات سن کر اوروں کو اس بات کا یقین کامل ہو جائے کہ جنات کی پناہ میں آ جانے سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں اور پھر اس عقیدے کے باعث وہ اور گمراہ ہوں اور اللہ کے دین سے خارج ہو جائیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
یہ مسلمان جن اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ ’ اے جنو! جس طرح تمہارا گمان تھا اسی طرح انسان بھی اسی خیال میں تھے کہ اب اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیجے گا ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل