ترجمہ و تفسیر — سورۃ الأعراف (7) — آیت 4
وَ کَمۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا فَجَآءَہَا بَاۡسُنَا بَیَاتًا اَوۡ ہُمۡ قَآئِلُوۡنَ ﴿۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کر دیا، تو ان پر ہمارا عذاب راتوں رات آیا، یا جب کہ وہ دوپہر کو آرام کرنے والے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کر ڈالیں جن پر ہمارا عذاب (یا تو رات کو) آتا تھا جبکہ وہ سوتے تھے یا (دن کو) جب وہ قیلولہ (یعنی دوپہر کو آرام) کرتے تھے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور بہت بستیوں کو ہم نے تباه کردیا اور ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت پہنچا یا ایسی حالت میں کہ وه دوپہر کے وقت آرام میں تھے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 4){ وَ كَمْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَا ……:} پچھلی آیت میں فرمایا کہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو، یہاں فرمایا کہ دیکھ لو کہ نصیحت اور عبرت کے لیے تمھارے سامنے کتنی ہی بستیاں ہیں، جنھیں غیر اﷲ کی عبادت اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہم نے ہلاک کر دیا، جن میں سے کچھ تو وہ تھے جو رات امن و اطمینان سے سو رہے تھے کہ ان پر ہمارا عذاب آ گیا، جیسا کہ قوم لوط اور کچھ وہ تھے جو دوپہر کو آرام کر رہے تھے، جیسے شعیب علیہ السلام کی قوم۔ آرام اور بے خبری کی حالت میں آنے والا عذاب زیادہ خوف ناک ہوتا ہے، یعنی ان کفار کو اپنی خوش حالی پر مغرور نہیں ہونا چاہیے، اﷲ تعالیٰ کا عذاب اچانک آ کر اپنی گرفت میں لے سکتا ہے اور اس کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۹۷، ۹۸) اور سورۂ نحل (۴۵ تا ۴۷)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

4۔ 1 فَائِلُوْنَ قَیْلُوْلَۃ، ُ سے ہے، جو دوپہر کے وقت استراحت (آرام کرنے) کو کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا عذاب اچانک ایسے وقتوں میں آیا جب وہ آرام و راحت کے لئے بیخبر بستروں میں آسودہ خواب تھے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

4۔ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا۔ ہمارا عذاب ان پر رات کے وقت آیا یا جب وہ دوپہر کو سو رہے تھے

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

سابقہ باغیوں کی بستیوں کے کھنڈرات باعث عبرت ہیں ٭٭
ان لوگوں کو جو ہمارے رسولوں کی مخالفت کرتے تھے، انہیں جھٹلاتے تھے، تم سے پہلے ہم ہلاک کر چکے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی ذلت ان پر برس پڑی۔ جیسے فرمان ہے: تجھ سے اگلے رسولوں سے بھی مذاق کیا گیا، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ مذاق کرنے والوں کے مذاق نے انہیں تہہ و بالا کر دیا۔
ایک اور آیت میں ہے: بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے غارت کر دیا جو اب تک الٹی پڑی ہیں۔
اور جگہ ارشاد ہے: بہت سے اتراتے ہوئے لوگوں کے شہر ہم نے ویران کر دیئے۔ دیکھ لو کہ اب تک ان کے کھنڈرات تمہارے سامنے ہیں جو بہت کم آباد ہوئے۔ حقیقتاً وارث و مالک ہم ہی ہیں۔ ایسے ظالموں کے پاس ہمارے عذاب اچانک آ گئے اور وہ اپنی غفلتوں اور عیاشیوں میں مشغول تھے۔ کہیں دن کو دوپہر کے آرام کے وقت، کہیں رات کے سونے کے وقت۔
چنانچہ ایک آیت میں ہے «أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ» ۱؎ [7-الأعراف:97]‏‏‏‏ یعنی ’ لوگ اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان کے سوتے ہوئے راتوں رات اچانک ہمارا عذاب آ جائے؟ یا انہیں ڈر نہیں کہ دن دیہاڑے دوپہر کو ان کے آرام کے وقت ان پر ہمارے عذاب آ جائیں؟ ‘
اور آیت میں ہے: کیا مکاریوں سے ہماری نافرمانیاں کرنے والے اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ یا ان کے پاس عذاب الٰہی اس طرح آ جائیں کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے، یا اللہ انہیں ان کی بے خبری میں آرام کی گھڑیوں میں ہی پکڑ لے۔ کوئی نہیں جو اللہ کو عاجز کر سکے، یہ تو رب کی رحمت و رافت ہے جو گنہگار زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔
عذاب رب آ جانے کے بعد تو یہ خود اپنی زبانوں سے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں گے لیکن اس وقت کیا نفع؟ اسی مضمون کو آیت «وَكَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ» ۱؎ [21-الأنبياء:11]‏‏‏‏ میں بیان فرمایا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ { جب تک اللہ تعالیٰ بندوں کے عذر ختم نہیں کر دیتا، انہیں عذاب نہیں کرتا۔ عبدالملک سے جب یہ حدیث ان کے شاگردوں نے سنی تو دریافت کیا کہ اس کی صورت کیا ہے؟ تو آپ نے یہ آیت «فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا إِلَّا أَن قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ» پڑھ سنائی۔ } ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:14328:منقطع]‏‏‏‏
پھر فرمایا: امتوں سے بھی، ان کے رسولوں سے بھی یعنی سب سے قیامت کے دن سوال ہو گا۔
جیسے فرمان ہے «وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِيْنَ» ۱؎ [28-القصص:65]‏‏‏‏ یعنی ’ اس دن ندا کی جائے گی اور دریافت کیا جائے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟ ‘ اس آیت میں امتوں سے سوال کیا جانا بیان کیا گیا ہے۔
اور آیت میں ہے «يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ» ۱؎ [5-المائدة:109]‏‏‏‏ ’ رسولوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں کوئی علم نہیں، غیب کا جاننے والا تو ہی ہے۔ ‘ پس امت سے رسولوں کی قبولیت کی بابت اور رسولوں سے تبلیغ کی بابت قیامت کے دن سوال ہو گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: { تم میں سے ہر ایک بااختیار ہے اور اپنے زیر اختیار لوگوں کی بابت اس سے سوال کیا جانے والا ہے۔ بادشاہ سے اس کی رعایا کا، ہر آدمی سے اس کے اہل و عیال کا، ہر عورت سے اس کے خاوند کے گھر کا، ہر غلام سے اس کے آقا کے مال کا سوال ہو گا۔ } راوی حدیث طاؤس نے اس حدیث کو بیان فرما کر پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ اس زیادتی کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم کی نکالی ہوئی بھی ہے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:893]‏‏‏‏ اور زیادتی ابن مردویہ نے نقل کی ہے۔
قیامت کے دن اعمال نامے رکھے جائیں گے اور سارے اعمال ظاہر ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اعمال کی خبر دے گا۔ کسی کے عمل کے وقت اللہ غائب نہ تھا۔ ہر ایک چھوٹے بڑے، چھپے کھلے عمل کی اللہ کی طرف سے خبر دی جائے گی۔ اللہ ہر شخص کے اعمال سے باخبر ہے، اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ نہ وہ کسی چیز سے غافل ہے۔ آنکھوں کی خیانت سے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کا جاننے والا ہے۔
’ ہر پتے کے جھڑنے کا اسے علم ہے۔ زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ ہوتا ہے، اسے بھی وہ جانتا ہے۔ تر و خشک چیز اس کے پاس کھلی کتاب میں موجود ہے۔ ‘ ۱؎ [6-الأنعام:59]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل