یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
جس دن پنڈلی کھولی جائے گی اور وہ سجدے کی طرف بلائے جائیں گے تو وہ طاقت نہیں رکھیں گے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائے گا اور کفار سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کر سکیں گے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو (سجده) نہ کر سکیں گے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 42) ➊ {يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ …: ” يَوْمَ “} یا تو پچھلی آیت {” فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَآىِٕهِمْ “} کے متعلق ہے، یعنی دنیا میں تو ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے جھوٹ موٹ شریک گنوا دیں جو ان کی رہائی کے ذمہ دار بننے کا دعویٰ کریں، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر سچے ہیں تو اس دن اپنے شریک سامنے لائیں جس دن پنڈلی سے پردہ ہٹایا جائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہیں کر سکیں گے۔ یا یہ {” اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ “} کے متعلق ہے، یعنی متقین کو نعمت والی جنتیں اس دن ملیں گی جب پنڈلی سے پردہ ہٹایا جائے گا۔
➋ {” يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ “} کا ایک معنی تو وہ ہے جو ان لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے اور ایک وہ ہے جو ان لفظوں کے سادہ ترجمہ سے ہٹ کر کیا گیا ہے اور جو لغت عرب کا ایک محاورہ ہے۔ وہ معنی جو لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے یہ ہے کہ ”جس دن پنڈلی کھولی جائے گی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی ظاہر فرمائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے اور صحیح سند کے ساتھ آپ سے یہی مروی ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهٗ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ يَبْقٰی مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَ سُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُوْدُ ظَهْرُهٗ طَبَقًا وَاحِدًا] [بخاري، التفسیر، باب: «یوم یکشف عن ساق» : ۴۹۱۹] ”ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لیے سجدہ کرتا تھا، وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہوجائے گی(یعنی دوہری نہیں ہو سکے گی)۔“ اس حدیث میں صاف الفاظ موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا، بلکہ صحیح بخاری کے ایک اور مقام پر ہے کہ ہر قوم جس کسی کی پرستش کرتی تھی اس کے پیچھے چلی جائے گی، صلیب والے صلیب کے پیچھے، بتوں والے بتوں کے پیچھے اور دوسرے معبودوں والے اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چلے جائیں گے، صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا بد وہ اللہ تعالیٰ کا انتظار کر رہے ہوں گے، اللہ ان سے پوچھے گا: [هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهٗ آيَةٌ تَعْرِفُوْنَهُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ السَّاقُ فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ] [بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی: «وجوہ یومئذ ناظرۃ…» : ۷۴۳۹] ”کیا تمھارے اور تمھارے رب کے درمیان کوئی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو؟“ وہ کہیں گے: ”پنڈلی ہے۔“ تو اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اسے سجدہ کرے گا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ پنڈلی کھولنے سے مراد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کے درمیان اور اہل ایمان کے درمیان طے شدہ نشانی ہو گی اور اس نشانی کو دیکھ کر اہل ایمان رب تعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر جائیں گے۔ یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ حدیث کی دوسری بہت سی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اتنی اعلیٰ درجے کی صحیح سند کے ساتھ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت کی تفسیر آنے کے بعد کسی اور تفسیر کی نہ ضرورت رہتی ہے اور نہ گنجائش، مگر چونکہ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی ایک اور تفسیر کی ہے اس لیے وہ بھی ذکر کی جاتی ہے۔
ان مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ ” کشفِ ساق “ لغت عرب کا ایک محاورہ ہے، جو شدت سے کنایہ ہے، یعنی {” يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ “} کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا دن بہت سخت ہو گا، کیونکہ جب کوئی سختی یا مشکل پیش آتی ہے تو آدمی پنڈلی سے کپڑا اٹھا کر کمر کس لیتا ہے۔ یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے اور بعض تابعین جیسے مجاہد، عکرمہ اور ابراہیم نخعی رحمھم اللہ وغیرہ سے بھی آئی ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ درست ہے اور لغت عرب میں یہ محاورہ استعمال بھی ہوتا ہے، مگر پہلی تفسیر (یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا) میں قرآن کے صریح الفاظ کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور یہ تفسیر اس ذات گرامی نے کی ہے جس پر قرآن نازل ہوا تھا، اس لیے یہی مقدم ہے۔ البتہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں، اس دن اللہ تعالیٰ کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور اس دن کی شدت میں بھی کوئی شبہ نہیں۔خود ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہونے کا کبھی انکار نہیں فرمایا اور نہ دیگر صحابہ میں سے کسی نے ان الفاظ کا انکار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق اس سلسلے میں قرآن یا حدیث میں آئے ہیں۔ قرآن مجید میں چونکہ یہ صراحت نہیں کہ اللہ کی پنڈلی ظاہر ہوگی بلکہ صرف پنڈلی کا لفظ ہے، اس لیے ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس کا مفہوم یہ لیا کہ کشف ساق سے اس دن کی شدت مراد ہے اور یہ مراد لینا لغت عرب کے بالکل مطابق ہے، مگر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت نقل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہو گی، اس لیے مقدم وہی مفہوم ہو گا جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا، اگرچہ قیامت کے دن کی شدت بھی اپنی جگہ حقیقت ہے۔
افسوس تو ان لوگوں پر ہے جنھوں نے صاف کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر نہیں ہو گی، نہ اس کی پنڈلی ہے۔ ان لوگوں نے اس سے بڑھ کر اس قسم کے ان تمام الفاظ کا انکار کر دیا جو قرآن میں آئے ہیں، مثلاً ہاتھ، چہرہ، آنکھ، پاؤں وغیرہ اور کہا کہ اگر ہم یہ مانیں تو اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آتا ہے اور اس کا ہمارے جیسا ہونا لازم آتا ہے، جب کہ اس نے خود فرمایا: «لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ» [الشورٰی: ۱۱] ”اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔“ یہ لوگ ان تمام الفاظ کی کوئی نہ کوئی تاویل کرتے اور ان صفات کے ماننے والوں کو ”مشبہہ“ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کی اس بات کا جواب خود اسی آیت میں موجود ہے جسے وہ اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» [الشورٰی: ۱۱] ”اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“ یعنی یہ بھی مانو کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور یہ بھی مانو کہ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی۔ یہ خیال کر کے اس کے سمیع و بصیر ہونے کا انکار نہ کر دینا کہ ہم بھی سمیع اور بصیر ہیں، اگر اسے سمیع و بصیر مانا تو اس کا ہمارے مشابہ ہونا لازم آئے گا۔ نہیں، اس کا سمیع و بصیر ہونا تمھارے سمیع و بصیر ہونے کے مشابہ نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی، اس کا چہرہ، اس کا قدم اور جو کچھ اس نے خود اپنے متعلق بتایا سب برحق ہے، مگر اس کی پنڈلی مخلوق کی پنڈلی کے مشابہ نہیں، نہ کوئی اور صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ ہے، وہ اسی طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ صفاتِ الٰہی والی آیات و احادیث کے متعلق سلف صالحین کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے ظاہر الفاظ پر ایمان لانا چاہیے اور ان کی کیفیت اللہ کے سپرد کر دینی چاہیے۔جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کیا ہے درحقیقت وہ خود تشبیہ میں مبتلا ہیں کہ انھوں نے اللہ کی پنڈلی، اس کے چہرے اور دوسری صفات کو اپنے اعضا جیسا سمجھا اور یہ سمجھ کر ان سے انکار کر دیا۔ اگر وہ ان صفات کو اپنی صفات کی مثل خیال نہ کرتے تو کبھی انکار نہ کرتے۔
➋ {” يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ “} کا ایک معنی تو وہ ہے جو ان لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے اور ایک وہ ہے جو ان لفظوں کے سادہ ترجمہ سے ہٹ کر کیا گیا ہے اور جو لغت عرب کا ایک محاورہ ہے۔ وہ معنی جو لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے یہ ہے کہ ”جس دن پنڈلی کھولی جائے گی۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی ظاہر فرمائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لیے بلایا جائے گا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے اور صحیح سند کے ساتھ آپ سے یہی مروی ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهٗ كُلُّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ يَبْقٰی مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَ سُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُوْدُ ظَهْرُهٗ طَبَقًا وَاحِدًا] [بخاري، التفسیر، باب: «یوم یکشف عن ساق» : ۴۹۱۹] ”ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لیے سجدہ کرتا تھا، وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہوجائے گی(یعنی دوہری نہیں ہو سکے گی)۔“ اس حدیث میں صاف الفاظ موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا، بلکہ صحیح بخاری کے ایک اور مقام پر ہے کہ ہر قوم جس کسی کی پرستش کرتی تھی اس کے پیچھے چلی جائے گی، صلیب والے صلیب کے پیچھے، بتوں والے بتوں کے پیچھے اور دوسرے معبودوں والے اپنے اپنے معبودوں کے پیچھے چلے جائیں گے، صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا بد وہ اللہ تعالیٰ کا انتظار کر رہے ہوں گے، اللہ ان سے پوچھے گا: [هَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهٗ آيَةٌ تَعْرِفُوْنَهُ؟ فَيَقُوْلُوْنَ السَّاقُ فَيَكْشِفُ عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ] [بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی: «وجوہ یومئذ ناظرۃ…» : ۷۴۳۹] ”کیا تمھارے اور تمھارے رب کے درمیان کوئی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو؟“ وہ کہیں گے: ”پنڈلی ہے۔“ تو اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اسے سجدہ کرے گا۔“ اس سے معلوم ہوا کہ پنڈلی کھولنے سے مراد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کے درمیان اور اہل ایمان کے درمیان طے شدہ نشانی ہو گی اور اس نشانی کو دیکھ کر اہل ایمان رب تعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر جائیں گے۔ یہ حدیث صحیح بخاری کے علاوہ حدیث کی دوسری بہت سی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اتنی اعلیٰ درجے کی صحیح سند کے ساتھ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت کی تفسیر آنے کے بعد کسی اور تفسیر کی نہ ضرورت رہتی ہے اور نہ گنجائش، مگر چونکہ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی ایک اور تفسیر کی ہے اس لیے وہ بھی ذکر کی جاتی ہے۔
ان مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ ” کشفِ ساق “ لغت عرب کا ایک محاورہ ہے، جو شدت سے کنایہ ہے، یعنی {” يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ “} کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا دن بہت سخت ہو گا، کیونکہ جب کوئی سختی یا مشکل پیش آتی ہے تو آدمی پنڈلی سے کپڑا اٹھا کر کمر کس لیتا ہے۔ یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے منقول ہے اور بعض تابعین جیسے مجاہد، عکرمہ اور ابراہیم نخعی رحمھم اللہ وغیرہ سے بھی آئی ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ درست ہے اور لغت عرب میں یہ محاورہ استعمال بھی ہوتا ہے، مگر پہلی تفسیر (یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا) میں قرآن کے صریح الفاظ کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور یہ تفسیر اس ذات گرامی نے کی ہے جس پر قرآن نازل ہوا تھا، اس لیے یہی مقدم ہے۔ البتہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں، اس دن اللہ تعالیٰ کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور اس دن کی شدت میں بھی کوئی شبہ نہیں۔خود ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہونے کا کبھی انکار نہیں فرمایا اور نہ دیگر صحابہ میں سے کسی نے ان الفاظ کا انکار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق اس سلسلے میں قرآن یا حدیث میں آئے ہیں۔ قرآن مجید میں چونکہ یہ صراحت نہیں کہ اللہ کی پنڈلی ظاہر ہوگی بلکہ صرف پنڈلی کا لفظ ہے، اس لیے ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس کا مفہوم یہ لیا کہ کشف ساق سے اس دن کی شدت مراد ہے اور یہ مراد لینا لغت عرب کے بالکل مطابق ہے، مگر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت نقل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہو گی، اس لیے مقدم وہی مفہوم ہو گا جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا، اگرچہ قیامت کے دن کی شدت بھی اپنی جگہ حقیقت ہے۔
افسوس تو ان لوگوں پر ہے جنھوں نے صاف کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر نہیں ہو گی، نہ اس کی پنڈلی ہے۔ ان لوگوں نے اس سے بڑھ کر اس قسم کے ان تمام الفاظ کا انکار کر دیا جو قرآن میں آئے ہیں، مثلاً ہاتھ، چہرہ، آنکھ، پاؤں وغیرہ اور کہا کہ اگر ہم یہ مانیں تو اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آتا ہے اور اس کا ہمارے جیسا ہونا لازم آتا ہے، جب کہ اس نے خود فرمایا: «لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ» [الشورٰی: ۱۱] ”اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔“ یہ لوگ ان تمام الفاظ کی کوئی نہ کوئی تاویل کرتے اور ان صفات کے ماننے والوں کو ”مشبہہ“ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کی اس بات کا جواب خود اسی آیت میں موجود ہے جسے وہ اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ» [الشورٰی: ۱۱] ”اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“ یعنی یہ بھی مانو کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور یہ بھی مانو کہ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی۔ یہ خیال کر کے اس کے سمیع و بصیر ہونے کا انکار نہ کر دینا کہ ہم بھی سمیع اور بصیر ہیں، اگر اسے سمیع و بصیر مانا تو اس کا ہمارے مشابہ ہونا لازم آئے گا۔ نہیں، اس کا سمیع و بصیر ہونا تمھارے سمیع و بصیر ہونے کے مشابہ نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی، اس کا چہرہ، اس کا قدم اور جو کچھ اس نے خود اپنے متعلق بتایا سب برحق ہے، مگر اس کی پنڈلی مخلوق کی پنڈلی کے مشابہ نہیں، نہ کوئی اور صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ ہے، وہ اسی طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ صفاتِ الٰہی والی آیات و احادیث کے متعلق سلف صالحین کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے ظاہر الفاظ پر ایمان لانا چاہیے اور ان کی کیفیت اللہ کے سپرد کر دینی چاہیے۔جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کیا ہے درحقیقت وہ خود تشبیہ میں مبتلا ہیں کہ انھوں نے اللہ کی پنڈلی، اس کے چہرے اور دوسری صفات کو اپنے اعضا جیسا سمجھا اور یہ سمجھ کر ان سے انکار کر دیا۔ اگر وہ ان صفات کو اپنی صفات کی مثل خیال نہ کرتے تو کبھی انکار نہ کرتے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
42۔ 1 بعض نے کشف ساق سے مراد قیامت کی ہولناکیاں [ا۔ ی] لی ہیں لیکن ایک صحیح حدیث اس کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہوجائے گا (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا؟ اس کیفیت ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان کرسکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف و بلاشبہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اور حدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی سلف اور محدثین کا مسلک ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
سجدہ اس وقت منافقوں کے بس میں نہیں ہو گا ٭٭
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ’ پرہیزگار لوگوں کے لیے نعمتوں والی جنتیں ہیں ‘، اس لئے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ یہ جنتیں انہیں کب ملیں گی؟ تو فرمایا کہ ’ اس دن جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ‘۔ یعنی قیامت کے دن، جو دن بڑی ہولناکیوں والا، زلزلوں والا، امتحان والا اور آزمائش والا اور بڑے بڑے اہم امور کے ظاہر ہونے کا دن ہو گا۔
صحیح بخاری میں اس جگہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے ”ہمارا رب اپنی پنڈلی کھول دے گا پس ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت سجدے میں گر پڑے گی ہاں دنیا میں جو لوگ دکھاوے سناوے کے لیے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر تختہ کی طرف ہو جائے گی، یعنی ان سے سجدے کے لیے جھکا نہ جائے گا“ }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4919] یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے اور دوسری کتابوں میں بھی ہے کئی کئی سندوں سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث مطول ہے اور مشہور ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”یہ دن تکلیف دکھ درد اور شدت کا دن ہے۔“ [ابن جریر] اور ابن جریر اسے دوسری سند سے شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ سیدنا ابن مسعود یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے «يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ» ۱؎ [68-القلم:42] کی تفسیر میں بہت بڑا عظیم الشان امر مروی ہے۔
جیسے شاعر کا قول ہے «وَقَامَتِ الْحَرْبُ بِنَا عَنْ سَاقٍ» یہاں بھی لڑائی کی عظمت اور بڑائی بیان کی گئی ہے، مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قیامت کے دن کی یہ گھڑی بہت سخت ہو گی، آپ فرماتے ہیں یہ امر بہت سخت بڑی گھبراہٹ والا اور ہولناک ہے، آپ فرماتے ہیں جس وقت امر کھول دیا جائے گا اعمال ظاہر ہو جائیں گے اور یہ کھلنا آخرت کا آ جاتا ہے اور اس سے کام کا کھل جانا ہے۔ یہ سب روایتیں ابن جریر میں ہیں۔
اس کے بعد یہ حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر میں فرمایا: ”مراد بہت بڑا نور ہے لوگ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے“ }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:42/29:ضعیف] یہ حدیث ابویعلیٰ میں بھی ہے اور اس کی اسناد میں ایک مبہم راوی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
(یاد رہے کہ صحیح تفسیر وہی ہے جو بخاری مسلم کے حوالے سے اوپر مرفوع حدیث میں گزری کہ اللہ عزوجل اپنی پنڈلی کھولے گا، دوسری حدیث بھی مطلب کے لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ اللہ خود نور اور اقوال بھی اس طرح ٹھیک ہیں کہ جہانوں کے پروردگار کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور ساتھ ہی وہ ہولناکیاں اور شدتیں بھی ہوں گی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم)
صحیح بخاری میں اس جگہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے ”ہمارا رب اپنی پنڈلی کھول دے گا پس ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت سجدے میں گر پڑے گی ہاں دنیا میں جو لوگ دکھاوے سناوے کے لیے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر تختہ کی طرف ہو جائے گی، یعنی ان سے سجدے کے لیے جھکا نہ جائے گا“ }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4919] یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے اور دوسری کتابوں میں بھی ہے کئی کئی سندوں سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث مطول ہے اور مشہور ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”یہ دن تکلیف دکھ درد اور شدت کا دن ہے۔“ [ابن جریر] اور ابن جریر اسے دوسری سند سے شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ سیدنا ابن مسعود یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے «يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ» ۱؎ [68-القلم:42] کی تفسیر میں بہت بڑا عظیم الشان امر مروی ہے۔
جیسے شاعر کا قول ہے «وَقَامَتِ الْحَرْبُ بِنَا عَنْ سَاقٍ» یہاں بھی لڑائی کی عظمت اور بڑائی بیان کی گئی ہے، مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قیامت کے دن کی یہ گھڑی بہت سخت ہو گی، آپ فرماتے ہیں یہ امر بہت سخت بڑی گھبراہٹ والا اور ہولناک ہے، آپ فرماتے ہیں جس وقت امر کھول دیا جائے گا اعمال ظاہر ہو جائیں گے اور یہ کھلنا آخرت کا آ جاتا ہے اور اس سے کام کا کھل جانا ہے۔ یہ سب روایتیں ابن جریر میں ہیں۔
اس کے بعد یہ حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر میں فرمایا: ”مراد بہت بڑا نور ہے لوگ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے“ }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:42/29:ضعیف] یہ حدیث ابویعلیٰ میں بھی ہے اور اس کی اسناد میں ایک مبہم راوی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
(یاد رہے کہ صحیح تفسیر وہی ہے جو بخاری مسلم کے حوالے سے اوپر مرفوع حدیث میں گزری کہ اللہ عزوجل اپنی پنڈلی کھولے گا، دوسری حدیث بھی مطلب کے لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ اللہ خود نور اور اقوال بھی اس طرح ٹھیک ہیں کہ جہانوں کے پروردگار کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور ساتھ ہی وہ ہولناکیاں اور شدتیں بھی ہوں گی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم)
دنیا میں سجدہ نہ کرنے والے کی قیامت کو حالت ٭٭
پھر فرمایا ’ جس دن ان لوگوں کی آنکھیں اوپر کو نہ اٹھیں گی اور ذلیل و پست ہو جائیں گے کیونکہ دنیا میں بڑے سرکش اور کبر و غرور والے تھے، صحت اور سلامتی کی حالت میں دنیا میں جب انہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا تو رک جاتے تھے جس کی سزا یہ ملی کہ آج سجدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کر سکتے پہلے کر سکتے تھے لیکن نہیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر مومن سب سجدے میں گر پڑیں گے لیکن کافر و منافق سجدہ نہ کر سکیں گے، کمر تختہ ہو جائے گی، جھکے گی ہی نہیں بلکہ پیٹھ کے بل چت گر پڑیں گے، یہاں بھی ان کی حالت مومنوں کے خلاف تھی، وہاں بھی خلاف ہی رہے گی ‘۔
پھر فرمایا ’ مجھے اور میری اس حدیث یعنی قرآن کو جھٹلانے والوں کو تو چھوڑ دے، اس میں بڑی وعید ہے اور سخت ڈانٹ ہے کہ تو ٹھہر جا میں خود ان سے نپٹ لوں گا، دیکھ تو سہی کہ کس طرح بتدریج انہیں پکڑتا ہوں یہ اپنی سرکشی اور غرور میں پڑتے جائیں گے، میری ڈھیل کے راز کو نہ سمجھیں گے اور پھر ایک دم یہ پاپ کا گھڑا پھوٹے گا اور میں اچانک انہیں پکڑ لوں گا۔ میں انہیں بڑھاتا رہوں گا یہ بدمست ہوتے چلے جائیں گے وہ اسے کرامت سمجھیں گے حالانکہ وہ اہانت ہو گی ‘۔
جیسے اور جگہ ہے «أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَل لَّا يَشْعُرُونَ» ۱؎ [23-المؤمنون:56،55]، یعنی ’ کیا ان کا گمان ہے کہ مال و اولاد کا بڑھنا ان کے لیے ہماری جانب سے کسی بھلائی کی بنا پر ہے، نہیں بلکہ یہ بے شعور ہیں ‘۔
اور جگہ فرمایا «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ» ۱؎ [6-الأنعام:44] ’ جب یہ ہمارے وعظ و پند کو بھلا چکے تو ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ انہیں جو دیا گیا تھا اس پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ناگہانی پکڑ لیا اور ان کی امیدیں منقطع ہو گئیں ‘۔
یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے ’ میں انہیں ڈھیل دوں گا، بڑھاؤں گا اور اونچا کروں گا یہ میرا داؤ ہے اور میری تدبیر میرے مخالفوں اور میرے نافرمانوں کے ساتھ بہت بڑی ہے ‘۔
پھر فرمایا ’ مجھے اور میری اس حدیث یعنی قرآن کو جھٹلانے والوں کو تو چھوڑ دے، اس میں بڑی وعید ہے اور سخت ڈانٹ ہے کہ تو ٹھہر جا میں خود ان سے نپٹ لوں گا، دیکھ تو سہی کہ کس طرح بتدریج انہیں پکڑتا ہوں یہ اپنی سرکشی اور غرور میں پڑتے جائیں گے، میری ڈھیل کے راز کو نہ سمجھیں گے اور پھر ایک دم یہ پاپ کا گھڑا پھوٹے گا اور میں اچانک انہیں پکڑ لوں گا۔ میں انہیں بڑھاتا رہوں گا یہ بدمست ہوتے چلے جائیں گے وہ اسے کرامت سمجھیں گے حالانکہ وہ اہانت ہو گی ‘۔
جیسے اور جگہ ہے «أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُم بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَل لَّا يَشْعُرُونَ» ۱؎ [23-المؤمنون:56،55]، یعنی ’ کیا ان کا گمان ہے کہ مال و اولاد کا بڑھنا ان کے لیے ہماری جانب سے کسی بھلائی کی بنا پر ہے، نہیں بلکہ یہ بے شعور ہیں ‘۔
اور جگہ فرمایا «فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ» ۱؎ [6-الأنعام:44] ’ جب یہ ہمارے وعظ و پند کو بھلا چکے تو ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ انہیں جو دیا گیا تھا اس پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ناگہانی پکڑ لیا اور ان کی امیدیں منقطع ہو گئیں ‘۔
یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے ’ میں انہیں ڈھیل دوں گا، بڑھاؤں گا اور اونچا کروں گا یہ میرا داؤ ہے اور میری تدبیر میرے مخالفوں اور میرے نافرمانوں کے ساتھ بہت بڑی ہے ‘۔
بخاری مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4686] «وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ» ۱؎ [11-ھود:102] یعنی ’ اسی طرح ہے تیرے رب کی پکڑ جبکہ وہ کسی بستی والوں کو پکڑتا ہے جو ظالم ہوتے ہیں اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور بہت سخت ہے ‘۔
پھر فرمایا ’ تو کچھ ان سے اجرت اور بدلہ تو مانگتا ہی نہیں جو ان پر بھاری پڑتا ہو جس تاوان سے یہ جھکے جاتے ہوں، نہ ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں ‘۔
ان دونوں جملوں کی تفسیر سورۃ والطور میں گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے نبی! آپ انہیں اللہ عزوجل کی طرف بغیر اجرت اور بغیر مال طلبی کے اور بغیر بدلے کی چاہت کے بلا رہے ہیں آپ کی غرض سوائے ثواب حاصل کرنے کے اور کوئی نہیں اس پر بھی یہ لوگ صرف اپنی جہالت اور کفر اور سرکشی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں۔
پھر فرمایا ’ تو کچھ ان سے اجرت اور بدلہ تو مانگتا ہی نہیں جو ان پر بھاری پڑتا ہو جس تاوان سے یہ جھکے جاتے ہوں، نہ ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں ‘۔
ان دونوں جملوں کی تفسیر سورۃ والطور میں گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے نبی! آپ انہیں اللہ عزوجل کی طرف بغیر اجرت اور بغیر مال طلبی کے اور بغیر بدلے کی چاہت کے بلا رہے ہیں آپ کی غرض سوائے ثواب حاصل کرنے کے اور کوئی نہیں اس پر بھی یہ لوگ صرف اپنی جہالت اور کفر اور سرکشی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں۔