ترجمہ و تفسیر — سورۃ القلم (68) — آیت 2
مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہ تو اپنے رب کی نعمت سے ہرگز دیوانہ نہیں ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کہ (اے محمدﷺ) تم اپنے پروردگار کے فضل سے دیوانے نہیں ہو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 2تا4) ➊ {مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ …:} اللہ تعالیٰ نے قلم کی اور اس چیز کی قسم کھائی جو لکھنے والے لکھتے ہیں اور اس کے جواب میں تین باتیں ارشاد فرمائیں، پہلی یہ کہ آپ اللہ کے فضل سے مجنون(دیوانے) نہیں ہیں، دوسری یہ کہ آپ کے لیے ایسا اجر ہے جو منقطع ہونے والا نہیں اور تیسری یہ کہ یقینا آپ خلق عظیم پر ہیں۔ قسم جواب قسم کی تاکید کے لیے کھائی جاتی ہے اور عام طور پر اس کے لیے شاہد اور دلیل ہوتی ہے، یہاں قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ قلم اور قلم سے لکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کفار کا یہ کہنا غلط ہے کہ آپ دیوانے ہیں۔ تقدیر کے قلم نے لوحِ محفوظ میں ہزاروں سال پہلے آپ کی قسمت میں جو صدق و امانت، نبوت و رسالت اور دنیا و آخرت میں کامیابی اور عزت و رفعت لکھ دی ہے اور پہلے صحائف میں آپ کے متعلق جو پیش گوئیاں اور فضائل لکھے ہوئے ہیں، کراماً کاتبین آپ کے اعمال نامے میں جو کچھ لکھ رہے ہیں اور کسی بھی شخص کے اعمال نامے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے، قرآن مجید میں جو عقائد، احکام، قصص اور گزشتہ و آئندہ کی خبریں لکھی ہوئی ہیں، جن کا ایک شوشہ بھی نہ غلط ثابت ہوا ہے نہ ہو گا اور جس کی مثل چھوٹی سے چھوٹی سورت کوئی شخص پیش کر سکا ہے نہ کر سکے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلنے والے الفاظ، آپ کے افعال و احوال اور آپ کا بعض مواقع پر خاموش رہنا، یہ سب کچھ جو یاد کرنے والوں نے یاد کیا اور لکھنے والوں نے لکھا ہے اور قیامت تک یاد کرتے اور لکھتے چلے جائیں گے، اگر کوئی ان تمام لکھی ہوئی چیزوں پر غور کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے بڑے بڑے عقل مندوں کی تحریروں کا موازنہ کرے اور سارے جہاں کے دیوانوں، یاوہ گو شاعروں، گپ بازوں اور افسانہ نویسوں کی لکھی ہوئی فضولیات کا بھی جائزہ لے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ لوحِ محفوظ میں جس کی قسمت میں اتنی سعادتیں لکھ دی گئی ہیں،جس کی پیش گوئیاں پہلے آسمانی صحائف میں لکھی ہوئی ہیں، جو اُمی ہونے کے باوجود قرآن جیسی عظیم کتاب لے کر آیا ہے، جس کے اقوال و احوال اور افعال و تقریرات میں سے ہر چیز بے حد محبت و عقیدت سے لکھی گئی ہے اور قیامت تک محفوظ ہے اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت کی روشنی مہیا کرتی ہے، اس کے متعلق کفار کا کہنا{ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ } کہ آپ دیوانے ہیں (دیکھیے حجر: ۶) بالکل غلط ہے، آپ اللہ کے فضل سے ہرگز دیوانے نہیں ہیں۔
کفار کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ زمانے کی گردش کے ساتھ آپ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ (طور:۳۰) اور یہ کہ آپ ابتر ہیں (کوثر:۳) اور یہ کہ آپ کے بعد آپ کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔ نہیں، بلکہ یقین رکھو کہ آپ کے لیے وہ اجر ہے جو کبھی منقطع نہیں ہو گا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی امت کے اعمال حسنہ بھی آپ کے نامۂ اعمال میں لکھے جاتے رہیں گے، کیونکہ وہ آپ کی تعلیم ہی سے کیے گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ دَلَّ عَلٰی خَيْرٍ فَلَهٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ] [مسلم، الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازي في سبیل اللّٰہ…: ۱۸۹۳] جو کسی نیکی کی طرف رہنمائی کرے تو اسے وہ نیکی کرنے والے کی طرح اجر ملے گا۔اور کفار کا آپ کے متعلق یہ کہنا بھی غلط ہے کہ آپ شاعر ہیں یا کاہن ہیں یا نعوذ باللہ کذاب یا متکبر ہیں۔ (دیکھیے قمر:۲۵) نہیں، بلکہ آپ خلق عظیم پر ہیں۔ ان تینوں آیات میں مخاطب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، مگر اصل میں یہ باتیں کفار کو سمجھائی جا رہی ہیں۔
➋ {وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ: خُلُقٍ } کے لفظی معنی ہیں وہ عادتیں جو پیدائشی طور پر انسان میں پائی جاتی ہیں، یعنی وہ خصلتیں جو طبیعت میں پختہ ہو جائیں اور اس طرح عادت بن جائیں کہ بغیر سوچے سمجھے خود بخود سرزد ہوتی رہیں خلق کہلاتی ہیں۔ عام طور پر خلق سے مراد لوگوں سے اچھا برتاؤ کرنا اور انھیں خندہ پیشانی سے ملنا لیا جاتا ہے، اگرچہ خلق کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے مگر یہ خلق کا محدود مفہوم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ابن عباس رضی اللہ عنھما نے { خُلُقٍ عَظِيْمٍ } کی تفسیر دین سے کی ہے۔(طبری) اور عائشہ رضی اللہ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: [كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ] [مسند أحمد: 91/6، ح: ۲۴۶۰۱۔ مسلم: ۷۴۶] آپ کا خلق قرآن تھا۔
یعنی ابنِ عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر کے مطابق دین اسلام کی ہر بات پر آپ کا اس طرح عمل تھا جیسے وہ آپ کی طبعی عادت ہو اور بقول عائشہ رضی اللہ عنھا قرآن مجید آپ کا خلق یعنی آپ کی طبیعت بن گیا تھا۔ وہ سب کچھ جو قرآن میں ہے آپ سے بلا تکلف خود بخود عمل میں آتا تھا، جیسے وہ آپ کی طبعی خصلت ہے۔ قرآن میں جو حکم دیا گیا اس پر آپ کا عمل تھا اور جس سے منع کیا گیا اس سے مکمل اجتناب تھا، جو خوبیاں اختیار کرنے کی تلقین کی گئی آپ ان سے پوری طرح آراستہ تھے اور جن صفات کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے۔ الغرض، آپ میں تمام انسانی خوبیاں جمع ہو گئی تھیں، مثلاً شرفِ نسب، کمال عقل، درستی فہم، کثرتِ علم، شدتِ حیا، کثرتِ عبادت، سخاوت، صدق، شجاعت، صبر، شکر، مروت، دوستی و محبت، میانہ روی، زہد، تواضع، شفقت، عدل، عفو، برداشت، صلہ رحمی، حسنِ معاشرت، حسنِ تدبیر، فصاحتِ لسان، قوتِ حواس، حسنِ صورت و غیرہ، جیسا کہ آپ کی زندگی کے حالات و واقعات میں مذکور ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

2۔ 1 یہ جواب قسم ہے، جس میں کفار کے قول کا رد ہے، وہ آپ کو مجنون (دیوانہ) کہتے تھے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

نون سے کیا مراد ہے؟ ٭٭
نون وغیرہ جیسے حروف ہجا کا مفصل بیان سورۃ البقرہ کے شروع میں گزر چکا ہے اس لیے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں، کہا گیا ہے کہ یہاں ن سے مراد وہ بڑی مچھلی ہے جو ایک محیط عالم پانی پر ہے جو ساتوں زمینوں کو اٹھائے ہوئے ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا ’ لکھ ‘ اس نے کہا: کیا لکھوں؟ فرمایا ’ تقدیر لکھ ڈال ‘ پس اس دن سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے اس پر قلم جاری ہو گیا پھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی پیدا کی اور پانی کے بخارات بلند کئے، جس سے آسمان بنے اور زمین کو اس مچھلی کی پیٹھ پر رکھا مچھلی نے حرکت کی جس سے زمین بھی ہلنے لگی پس زمین پر پہاڑ گاڑ کر اسے مضبوط اور ساکن کر دیا، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:14/29:قال امام حاكم:صحیح]‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ یہاں ن سے مراد یہ مچھلی ہے۔
طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو اور مچھلی کو پیدا کیا، قلم نے دریافت کیا میں کیا لکھوں؟ حکم ہوا، ہر وہ چیز جو قیامت تک ہونے والی ہے، پھر آپ نے پہلی آیت کی تلاوت کی، پس نون سے مراد یہ مچھلی ہے اور قلم سے مراد یہ قلم ہے۔ ۱؎ [طبرانی:8652-8653:ضعیف]‏‏‏‏
ابن عساکر کی حدیث میں ہے { سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر نون یعنی دوات کو پھر قلم سے فرمایا: ’ لکھ ‘ اس نے پوچھا: کیا؟ فرمایا ’ جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے ‘ عمل، رزق، عمر، موت وغیرہ، پس قلم نے سب کچھ لکھ لیا }۔
اس آیت میں یہی مراد ہے، پھر قلم پر مہر لگا دی اب وہ قیامت تک نہ چلے گا، پھر عقل کو پیدا کیا اور فرمایا ’ مجھے اپنی عزت کی قسم اپنے دوستوں میں تو میں تجھے کمال تک پہنچاؤں گا اور اپنے دشمنوں میں تجھے ناقص رکھوں گا ‘۔
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مشہور تھا کہ نون سے مراد وہ مچھلی ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے، بغوی رحمہ اللہ وغیرہ مفسرین فرماتے ہیں کہ اس مچھلی کی پیٹھ پر ایک چٹان ہے جس کی موٹائی آسمان و زمین کے برابر ہے اس پر ایک بیل ہے جس کے چالیس ہزار سینگ ہیں اس کی پیٹھ پر ساتوں زمینیں اور ان پر تمام مخلوق ہے۔‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اور تعجب تو یہ ہے کہ ان بعض مفسرین نے اس حدیث کو بھی انہی معنی پر محمول کیا ہے جو مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ { جب سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آ گئے ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بہت کچھ سوالات کئے ـ کہا کہ میں وہ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جنہیں نبیوں کے سوا اور کوئی نہیں جانتا بتائیے قیامت کے پہلی نشانی کیا ہے؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ کبھی بچہ اپنے باپ کی صورت میں ہوتا ہے کبھی ماں کی صورت پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ باتیں ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بتا دیں، سیدنا ابن سلام رضی اللہ عنہ کہنے لگے فرشتوں میں سے یہی فرشتہ ہے جو یہودیوں کا دشمن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ کا نکلنا ہے جو لوگوں کو مشرق کی طرف سے مغرب کی طرف لے جائے گی اور جنتیوں کا پہلا کھانا مچھلی کی کلیجی کی زیادتی ہے اور مرد کا پانی عورت کے پانی پر سابق آ جائے تو لڑکا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت کر جائے تو وہی کھینچ لیتی ہے۱؎ [مسند احمد:108/3:صحیح]‏‏‏‏
دوسری حدیث میں اتنی زیادتی ہے کہ { پوچھا جنتیوں کے اس کھانے کے بعد انہیں کیا ملے گا؟ فرمایا: جنتی بیل ذبح کیا جائے گا جو جنت میں چرتا چگتا رہا تھا، پوچھا: انہیں پانی کون سا ملے گا؟ فرمایا: «سلسبیل» نامی نہر کا۱؎ [صحیح مسلم:315]‏‏‏‏
یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد «ن» سے نور کی تختی ہے۔‏‏‏‏ ایک مرسل غریب حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ اس سے مراد نور کی تختی اور نور کا حکم ہے جو قیامت تک کے حال پر چل چکا ہے۔ } ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:34540:مرسل و ضعیف]‏‏‏‏
ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے خبر دی گئی ہے کہ یہ نورانی قلم سو سال کی طولانی رکھتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «ن» سے مراد دوات ہے اور «قلم» سے مراد قلم ہے۔‏‏‏‏ ۱؎ [ضعیف]‏‏‏‏ حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی فرماتے ہیں۔
ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ مروی ہے جو ابن ابی حاتم میں ہے کہ { اللہ نے «نون» کو پیدا کیا اور وہ دوات ہے }۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے «نون» یعنی دوات کو پیدا کیا اور قلم کو پیدا کیا، پھر فرمایا ’ لکھ ‘ اس نے پوچھا: کیا لکھوں؟ فرمایا: ’ جو قیامت تک ہونے والا ہے ‘، اعمال خواہ نیک ہوں، خواہ بد، روزی خواہ حلال ہو، خواہ حرام، پھر یہ بھی کہ کون سی چیز دنیا میں کب آئے گی کس قدر رہے گی، کیسے نکلے گی، پھر اللہ تعالیٰ نے بندوں پر محافظ فرشتے مقرر کئے اور کتاب پر داروغے مقرر کئے، محافظ فرشتے ہر دن ان کے عمل خازن فرشتوں سے دریافت کر کے لکھ لیتے ہیں جب رزق ختم ہو جاتا ہے عمر پوری ہو جاتی ہے اجل آ پہنچتی ہے تو محافظ فرشتے داروغہ فرشتوں کے پاس آ کر پوچھتے ہیں بتاؤ آج کے دن کا کیا سامان ہے؟ وہ کہتے ہیں بس اس شخص کے لیے ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں رہا، یہ سن کر یہ فرشتے نیچے اترتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ مر گیا ـ
اس بیان کے بعد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا تم تو عرب ہو کیا تم نے قرآن میں محافظ فرشتوں کی بابت یہ نہیں پڑھا؟ «اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ [45-الجاثية:29]‏‏‏‏ مطلب یہ ہے کہ ہم تمہارے اعمال کو اصل سے نقل کر لیا کرتے تھے۔
قلم سے کیا مراد ہے؟ ٭٭
یہ تو تھا لفظ «ن» کے متعلق بیان، اب «قلم» کی نسبت سنئے۔ بظاہر مراد یہاں عام قلم ہے جس سے لکھا جاتا ہے جیسے اور جگہ فرمان عالیشان ہے «‏‏‏‏الَّذِيْ عَلَّمَ بالْقَلَمِ» ‏‏‏‏ ۱؎ [96-العلق:4]‏‏‏‏ یعنی ’ اس اللہ نے قلم سے لکھنا سکھایا ‘، پس اس کی قسم کھا کر اس بات پر آگاہی کی جاتی ہے کہ مخلوق پر میری ایک نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے انہیں لکھنا سکھایا جس سے علوم تک ان کے رسائی ہو سکے۔
اس لیے اس کے بعد فرمایا «ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ [68- القلم:1]‏‏‏‏ یعنی ’ اس چیز کی قسم جو لکھتے ہیں ‘۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی تفسیر یہ بھی مروی ہے کہ اس چیز کی جو جانتے ہیں، سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد اس سے فرشتوں کا لکھنا ہے جو بندوں کے اعمال لکھتے ہیں اور مفسرین کہتے ہیں اس سے مراد وہ قلم ہے جو قدرتی طور پر چلا اور تقدیریں لکھیں آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے، اور اس قول کی دلیل میں یہ جماعت وہ حدیثیں وارد کرتی ہے جو قلم کے ذکر میں مروی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر لکھا گیا۔
نبی دیوانہ نہیں ہوتا ٭٭
پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی! تو بحمد اللہ دیوانہ نہیں جیسے کہ تیری قوم کے جاہل منکرین حق کہتے ہیں بلکہ تیرے لیے اجر عظیم ہے اور ثواب بے پایاں ہے جو نہ ختم ہو، نہ ٹوٹے، نہ کٹے کیونکہ تو نے حق رسالت ادا کر دیا ہے اور ہماری راہ میں سخت سے سخت مصیبتیں جھیلی ہیں ہم تجھے بے حساب بدلہ دیں گے، تو بہت بڑے خلق پر ہے یعنی دین اسلام پر اور بہترین ادب پر ہے ‘۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اخلاق نبوی کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا، سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی جیسے کہ قرآن میں ہے ـ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:34559]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا؟ سائل سعید بن ہشام نے کہا ہاں پڑھا ہے آپ نے فرمایا: بس تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن کریم تھا۔ ۱؎ [عبد الرزاق فی التفسیر:3275]‏‏‏‏ مسلم میں یہ حدیث پوری ہے جسے ہم سورۃ مزمل کی تفسیر میں بیان کریں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔
خلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٭٭
بنو سواد کے ایک شخص نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی سوال کیا تھا تو آپ نے یہی فرما کر پھر آیت «‏‏‏‏وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ» ‏‏‏‏ ۱؎ [68-القلم:4]‏‏‏‏ پڑھی اس نے کہا: کوئی ایک آدھ واقعہ تو بیان کیجئے، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: سنو! ایک مرتبہ میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا پکایا اور حفصہ نے بھی، میں نے اپنی لونڈی سے کہا: دیکھ اگر میرے کھانے سے پہلے حفصہ کے ہاں کا کھانا آ جائے تو برتن گرا دینا چنانچہ اس نے یہی کیا اور برتن بھی ٹوٹ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بکھرے ہوئے کھانے کو سمیٹنے لگے اور فرمایا: اس برتن کے بدلے ثابت برتن تم دو واللہ! اور کچھ ڈانٹا ڈپٹا نہیں۔ ۱؎ [مسند احمد:111/6:ضعیف]‏‏‏‏
مطلب اس حدیث کا جو کئی طریق سے مختلف الفاظ میں کئی کتابوں میں ہے، یہ ہے کہ ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبلت اور پیدائش میں ہی اللہ نے پسندیدہ اخلاق، بہترین خصلتیں اور پاکیزہ عادتیں رکھی تھیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل قرآن کریم پر ایسا تھا کہ گویا احکام قرآن کا مجسم عملی نمونہ ہیں، ہر حکم کو بجا لانے اور ہر نہی سے رک جانے میں آپ کی حالت یہ تھی کہ گویا قرآن میں جو کچھ ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتوں اور آپ کے کریمانہ اخلاق کا بیان ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی لیکن کسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اف تک نہیں کہا، کسی کرنے کے کام کو نہ کروں یا نہ کرنے کے کام کر گزروں تو بھی ڈانٹ ڈپٹ تو کجا اتنا بھی نہ فرماتے کہ ایسا کیوں ہوا؟ } ۱؎ [صحیح بخاری:6038]‏‏‏‏ { نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوش خلق تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم، نہ تو ریشم ہے، نہ کوئی اور چیز۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ سے زیادہ خوشبو والی چیز میں نے تو کوئی نہیں سونگھی نہ مشک اور نہ عطر }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:1973]‏‏‏‏
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک ٭٭
صحیح بخاری میں ہے سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت اور سب سے زیادہ خلیق تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد نہ تو بہت لمبا تھا نہ آپ پست قامت تھے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3549]‏‏‏‏ اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔
شمائل ترمذی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایات ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے نہ تو کبھی کسی خادم یا غلام کو مارا، نہ بیوی بچوں کو، نہ کسی اور کو، ہاں اللہ کی راہ کا جہاد الگ چیز ہے، جب کبھی دو کاموں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پسند کرتے جو زیادہ آسان ہوتا، ہاں یہ اور بات ہے کہ اس میں کچھ گناہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بہت دور ہو جاتے، کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بدلہ کسی سے نہیں لیا ہاں یہ اور بات ہے کہ کوئی اللہ کی حرمتوں کو توڑتا ہو تو آپ اللہ کے احکام جاری کرنے کے لیے ضرور انتقام لیتے } ۱؎ [صحیح بخاری:3560]‏‏‏‏
مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: میں بہترین اخلاق اور پاکیزہ ترین عادتوں کو پورا کرنے کے لیے آیا ہوں۱؎ [مسند احمد:2/381:صحیح]‏‏‏‏
پھر فرماتا ہے کہ ’ اے نبی! آپ اور آپ کے مخالف اور منکر ابھی ابھی جان لیں گے کہ دراصل بہکا ہوا اور گمراہ کون تھا؟ ‘
جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏سَيَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْاَشِرُ» ‏‏‏‏ ۱؎ [54-القمر:26]‏‏‏‏ ’ انہیں ابھی کل ہی معلوم ہو جائے گا کہ جھوٹا اور شیخی باز کون تھا؟ ‘
جیسے اور جگہ ہے «وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ» ‏‏‏‏ ۱؎ [34-سبأ:24]‏‏‏‏ ’ ہم یا تم ہدایت پر ہیں یا کھلی گمراہی پر ‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یعنی یہ حقیقت قیامت کے دن کھل جائے گی، آپ سے مروی ہے کہ «مَفْتُونُ» مجنون کو کہتے ہیں۔‏‏‏‏ مجاہد رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں یعنی کون شیطان سے نزدیک تر ہے؟ «مَفْتُونُ» کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ جو حق سے بہک جائے اور گمراہ ہو جائے۔ «أَييِّكُمُ» پر ب کو اس لیے داخل کیا گیا ہے کہ دلالت ہو جائے کہ «‏‏‏‏فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ [68-القلم:5]‏‏‏‏ میں تضمین فعل ہے تو تقدیری عبارت کو ملا کر ترجمہ یوں ہو جائے گا کہ ’ تو بھی اور وہ بھی عنقریب جان لیں گے ‘ اور تو بھی اور وہ سب بھی بہت جلدی «مَفْتُونُ» کی خبر دے دیں گے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
پھر فرمایا کہ ’ تم میں سے بہکنے والے اور راہ راست والے سب اللہ پر ظاہر ہیں اسے خوب معلوم ہے کہ راہ راست سے کس کا قدم پھسل گیا ہے ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل