وَ لَا یَسۡتَثۡنُوۡنَ ﴿۱۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور وہ کوئی استثنا نہیں کر رہے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور انشاء الله نہ کہا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور انشاءاللہ نہ کہا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 18) {وَ لَا يَسْتَثْنُوْنَ: ”اَلْاِسْتِثْنَاءُ“} کسی چیز کو عام حکم سے علیحدہ کرنا، ان شاء اللہ کہنا۔ آیت کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ انھیں اپنے منصوبے کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ انھوں نے ان شاء اللہ بھی نہیں کہا اور وہ اللہ کی قدرت و مشیت کو بھی بھول گئے۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے سارا پھل اتار لینے کی قسم کھائی۔ عام طور پر پھل چنتے وقت کچھ پھل مساکین کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن انھوں نے اس کا استثنا بھی نہیں کیا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
یعنی صبح ہوتے ہی پھل اتار لیں گے اور پیداوار کاٹ لیں گے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی ٭٭
یہاں ان کافروں کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے مثال بیان ہو رہی ہے کہ جس طرح یہ باغ والے تھے کہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کی اور اللہ کے عذابوں میں اپنے آپ کو ڈل دیا، یہی حالت ان کافروں کی ہے کہ اللہ کی نعمت یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری کی ناشکری یعنی انکار نے انہیں بھی اللہ کی ناراضگی کا مستحق کر دیا ہے۔
تو فرماتا ہے کہ ’ ہم نے انہیں بھی آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جس باغ میں طرح طرح کے پھل میوے وغیرہ تھے، ان لوگوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح سے پہلے ہی پہلے رات کے وقت پھل اتار لیں گے تاکہ فقیروں مسکینوں اور سائلوں کو پتہ نہ چلے جو وہ آ کھڑے ہوں اور ہمیں ان کو بھی دینا پڑے بلکہ کل پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے، اپنی اس تدبیر کی کامیابی پر انہیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ کو بھی بھول گئے ان شاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لیے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی، رات ہی رات میں ان کے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کر دیا ایسا ہو گیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی ‘۔
اسی لیے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگو گناہوں سے بچو گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جو اس کے لیے تیار کر دی گئی ہے۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آیتوں کی تلاوت کی کہ ’ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہ کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بے نصیب ہو گئے ‘ }۔ ۱؎ [الدار المنثور للسیوطی:395/6:ضعیف]
تو فرماتا ہے کہ ’ ہم نے انہیں بھی آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جس باغ میں طرح طرح کے پھل میوے وغیرہ تھے، ان لوگوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح سے پہلے ہی پہلے رات کے وقت پھل اتار لیں گے تاکہ فقیروں مسکینوں اور سائلوں کو پتہ نہ چلے جو وہ آ کھڑے ہوں اور ہمیں ان کو بھی دینا پڑے بلکہ کل پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے، اپنی اس تدبیر کی کامیابی پر انہیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ کو بھی بھول گئے ان شاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لیے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی، رات ہی رات میں ان کے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کر دیا ایسا ہو گیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی ‘۔
اسی لیے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگو گناہوں سے بچو گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جو اس کے لیے تیار کر دی گئی ہے۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آیتوں کی تلاوت کی کہ ’ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہ کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بے نصیب ہو گئے ‘ }۔ ۱؎ [الدار المنثور للسیوطی:395/6:ضعیف]
صبح کے وقت یہ آپس میں ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے کہ اگر پھل اتارنے کا ارادہ ہے تو اب دیر نہ لگاؤ سویرے ہی چل پڑو، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ باغ انگور کا تھا، اب یہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے تاکہ کوئی سن نہ لے اور غریب غرباء کو پتہ نہ لگ جائے، چونکہ ان کی سرگوشیاں اس اللہ سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں جو دلی ارادوں سے بھی پوری طرح واقف رہتا ہے وہ بیان فرماتا ہے کہ ’ ان کی وہ خفیہ باتیں یہ تھیں کہ دیکھو ہوشیار رہو کوئی مسکین بھنک پا کر کہیں آج آ نہ جائے ہرگز کسی فقیر کو باغ میں گھسنے ہی نہ دینا ‘۔ اب قوت و شدت کے ساتھ پختہ ارادے اور غریبوں پر غصے کے ساتھ اپنے باغ کو چلے۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «حَرْد» ان کی بستی کا نام تھا، لیکن یہ کچھ زیادہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ یہ جانتے تھے کہ اب ہم پھلوں پر قابض ہیں ابھی اتار کر سب لے آئیں گے۔