ترجمہ و تفسیر — سورۃ القلم (68) — آیت 17
اِنَّا بَلَوۡنٰہُمۡ کَمَا بَلَوۡنَاۤ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ ۚ اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ ﴿ۙ۱۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
یقینا ہم نے انھیں آزمایا ہے، جیسے ہم نے باغ والوں کو آزمایا، جب انھوں نے قسم کھائی کہ صبح ہوتے ہوتے اس کا پھل ضرور ہی توڑ لیں گے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 17) ➊ { اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ …:} اہل مکہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ تمام لوگ حج کے لیے ان کے پاس آتے اور اپنی ضروریات کے لیے ان کے گاہک بنتے تھے، وہ جہاں جاتے اہلِ حرم ہونے کی وجہ سے انھیں کوئی کچھ نہ کہتا۔ ہر قسم کا میوہ ان کے شہر پہنچ جاتا، ان کی تجارت خوب چمکی ہوئی تھی اور وہ نہایت مال دار اور مکمل امن کی نعمت سے بہرہ ور تھے۔ ان نعمتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ انعام بھی کیا کہ ان میں اپنا آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمایا، مگر انھوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا دیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ چلے جانے کے بعد قریش نے آپ کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس سے وہ خود بھی غیر محفوظ ہو گئے اور ان کی تجارت بھی برباد ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے ان پر قحط مسلط ہو گیا، یہاں تک کہ وہ مردار تک کھا گئے۔ [دیکھیے بخاري: ۴۸۲۱، ۴۸۰۹] اللہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ کی اس حالت کا ذکر ان آیات میں بھی بیان کیا ہے: «‏‏‏‏وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ (112) وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ» ‏‏‏‏ [النحل: ۱۱۲، ۱۱۳] اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی جو امن والی، اطمینان والی تھی، اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے آتا تھا، تو اس نے اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا، اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔ اور بلاشبہ یقینا ان کے پاس انھی میں سے ایک رسول آیا تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، تو انھیں عذاب نے اس حال میں آپکڑا کہ وہ ظالم تھے۔
یہاں اہلِ مکہ کی نا شکری اور اس پر سزا کے لیے بطور مثال ایک باغ والوں کا قصہ بیان کیا اور فرمایا: «‏‏‏‏اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ» ‏‏‏‏ بے شک ہم نے مکذبین کو نعمت دے کر آزمایا جس طرح باغ والوں کو نعمت دے کر آزمایا تھا۔یہ چند بھائی تھے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بہت شاندار باغ عطا فرمایا تھا، مگر بجائے اس کے کہ وہ اسے اللہ کی نعمت سمجھ کر اس میں سے اللہ تعالیٰ کا حصہ نکالتے، انھوں نے قسم کھالی کہ صبح ہوتے ہی اس کا پھل توڑ لیں گے، کسی مسکین کو نہ آنے دیں گے اور نہ انھیں کچھ دیں گے، مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے جانے سے پہلے ہی آگ لگنے یا کسی اور آسمانی آفت سے باغ برباد ہو گیا۔ صبح گئے تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔
➋ { بَلَوْنٰهُمْ بَلَا يَبْلُوْ} (ن) آزمانا، مصیبت میں مبتلا کرنا، انعام کرنا۔ { لَيَصْرِمُنَّهَا صَرَمَ يَصْرِمُ} (ض) کاٹنا، کٹنا۔ {صَرِيْمٌ} کٹا ہوا۔ یہ باغ کہاں تھا اور باغ والے کون تھے؟ قرآن نے ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ قرآن واقعات کو بطور تاریخ نہیں بلکہ بطور عبرت بیان کرتا ہے اور اس کے لیے نفس واقعہ ہی کافی ہے۔ اس مقام پر سورۂ کہف کی آیات (۳۲ تا ۴۴) بھی دیکھ لیں، وہاں بھی عبرت دلانے کے لیے دو باغ رکھنے والے کی مثال بیان کی گئی ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

17۔ 1 مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کو مال و دولت سے نوازا تاکہ وہ اللہ کا شکر کریں نہ کہ کفر وتکبر لیکن انہوں نے کفر و استکبار کیا تو ہم نے انہیں بھوک اور قحط کی آزمائش میں ڈال دیا جس میں وہ نبی کی بددعا کی وجہ سے کچھ عرصہ مبتلا رہے۔ 17۔ 2 باغ والوں کا قصہ عربوں میں مشہور تھا۔ یہ باغ (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا اس کا مالک اس کی پیداوار غربا و مساکین پر بھی خرچ کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس کی وارث بنی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں؟ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس باغ کو تباہ کردیا، کہتے ہیں یہ واقعہ حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تھوڑے عرصے بعد پیش آیا (فتح القدیر) یہ ساری تفصیل تفسیری روایات کی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی ٭٭
یہاں ان کافروں کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے مثال بیان ہو رہی ہے کہ جس طرح یہ باغ والے تھے کہ اللہ کی نعمت کی ناشکری کی اور اللہ کے عذابوں میں اپنے آپ کو ڈل دیا، یہی حالت ان کافروں کی ہے کہ اللہ کی نعمت یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری کی ناشکری یعنی انکار نے انہیں بھی اللہ کی ناراضگی کا مستحق کر دیا ہے۔
تو فرماتا ہے کہ ’ ہم نے انہیں بھی آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جس باغ میں طرح طرح کے پھل میوے وغیرہ تھے، ان لوگوں نے آپس میں قسمیں کھائیں کہ صبح سے پہلے ہی پہلے رات کے وقت پھل اتار لیں گے تاکہ فقیروں مسکینوں اور سائلوں کو پتہ نہ چلے جو وہ آ کھڑے ہوں اور ہمیں ان کو بھی دینا پڑے بلکہ کل پھل اور میوے خود ہی لے آئیں گے، اپنی اس تدبیر کی کامیابی پر انہیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ کو بھی بھول گئے ان شاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لیے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی، رات ہی رات میں ان کے پہنچنے سے پہلے آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کر دیا ایسا ہو گیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی ‘۔
اسی لیے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگو گناہوں سے بچو گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جو اس کے لیے تیار کر دی گئی ہے۔‏‏‏‏ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آیتوں کی تلاوت کی کہ ’ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہ کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بے نصیب ہو گئے ‘ }۔ ۱؎ [الدار المنثور للسیوطی:395/6:ضعیف]‏‏‏‏
صبح کے وقت یہ آپس میں ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے کہ اگر پھل اتارنے کا ارادہ ہے تو اب دیر نہ لگاؤ سویرے ہی چل پڑو، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ باغ انگور کا تھا، اب یہ چپکے چپکے باتیں کرتے ہوئے چلے تاکہ کوئی سن نہ لے اور غریب غرباء کو پتہ نہ لگ جائے، چونکہ ان کی سرگوشیاں اس اللہ سے تو پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں جو دلی ارادوں سے بھی پوری طرح واقف رہتا ہے وہ بیان فرماتا ہے کہ ’ ان کی وہ خفیہ باتیں یہ تھیں کہ دیکھو ہوشیار رہو کوئی مسکین بھنک پا کر کہیں آج آ نہ جائے ہرگز کسی فقیر کو باغ میں گھسنے ہی نہ دینا ‘۔ اب قوت و شدت کے ساتھ پختہ ارادے اور غریبوں پر غصے کے ساتھ اپنے باغ کو چلے۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں «حَرْد» ان کی بستی کا نام تھا، لیکن یہ کچھ زیادہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ یہ جانتے تھے کہ اب ہم پھلوں پر قابض ہیں ابھی اتار کر سب لے آئیں گے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل