ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں تھے ۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں ان ہی میں سے (محمدﷺ) کو پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور اس ے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
وہی ہے جس نے ناخوانده لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے۔ یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2) ➊ { هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ:} اس آیت کو دلیل بنا کر بعض اہل کتاب کہتے ہیں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف عربوں کے لیے رسول تھے، کیونکہ {” الْاُمِّيّٖنَ “} عرب قوم کو کہتے ہیں، لہٰذا آپ غیر عرب لوگوں اور یہود و نصاریٰ کے لیے رسول نہیں تھے۔ لیکن ان کی یہ بات درست نہیں، کیونکہ قرآن مجید میں{” الْاُمِّيّٖنَ “} کا لفظ ایک معنی میں نہیں بلکہ مختلف مواقع پر مختلف معانی کے لیے آیا ہے۔ کہیں وہ اہلِ کتاب کے مقابلے میں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جن کے پاس کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ قُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَ الْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ» [آل عمران: ۲۰] ”اور ان لوگوں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے اور اُمیوں (ان پڑھ لوگوں) سے کہہ دے کیا تم تابع ہو گئے؟ “ یہاں اُمیوں سے مراد مشرکینِ عرب ہیں، انھیں اہل کتاب (یہودو نصاریٰ) سے الگ گروہ قرار دیا گیاہے۔کہیں یہ لفظ خود اہلِ کتاب کے ان پڑھ لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیسے فرمایا: «وَ مِنْهُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِيَّ» [البقرۃ: ۷۸] ”اور ان میں سے کچھ اُمی (ان پڑھ) ہیں، جو کتاب کا علم نہیں رکھتے سوائے چند آرزوؤں کے۔“ اور کسی جگہ یہ لفظ خالص یہودی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے مطابق اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو یہودی نہیں ہیں، جیسا کہ فرمایا: «ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْاُمِّيّٖنَ سَبِيْلٌ» [آل عمران: ۷۵] ”یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا ہم پر اَن پڑھوں کے بارے میں (گرفت کا) کوئی راستہ نہیں۔“ یعنی ان کے اندر غیر یہود کا مال مار کھانے کی بد دیانتی پیدا ہونے کاسبب یہ ہے کہ انھوں نے کہا کہ اُمیوں کے بار ے میں ہم پر گرفت کا کوئی راستہ نہیں۔ یہود کی اس اصطلاح کا پس منظر یہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کے متعلق تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھے کہ ان میں کوئی نبی مبعوث ہو سکتا ہے، یا انھیں آسمانی کتاب مل سکتی ہے۔ (دیکھیے آل عمران: ۷۳) وہ اپنے سوا تمام اقوام کو ناشائستہ، بد مذہب اور حقیر و ذلیل سمجھتے تھے۔
زیر تفسیر آیات میں {” الْاُمِّيّٖنَ “} سے مراد صرف عرب نہیں، یہودی اصطلاح کے مطابق وہ سب لوگ ہیں جو یہودی نہیں، کیونکہ یہاں {” الْاُمِّيّٖنَ “} کے تحت دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے، یعنی {” هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ “} میں عرب ”امیین“ کا ذکر ہے، جنھیں یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نسباً ان میں سے تھے اور اس سے اگلی آیت میں غیر عرب امیین کا ذکر ہے جو بعد میں اسلام لانے والے تھے، اس میں فرمایا: «وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ» ”اور ان (امیین) میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (اس رسول کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“ اس کی دلیل کہ ان امیین سے مراد غیر عرب ہیں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں: [كُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ: «وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ» قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُوْلَ اللَّهِ!؟ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتّٰی سَأَلَ ثَلاَثًا، وَفِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلٰی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هٰؤُلاَءِ] [بخاري، التفسیر، سورۃ الجمعۃ: ۴۸۹۷] ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے توآپ پر سورۂ جمعہ نازل ہوئی: «وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ» میں نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟“ آپ نے جواب نہ دیا، یہاں تک کہ میں نے تین مرتبہ سوال کیا۔ ہم میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھا، پھر فرمایا:”اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوتا تو ان لوگوں میں سے کچھ آدمی یا (فرمایا) ایک آدمی اسے ضرور حاصل کر لیتا۔“ دراصل اس سورت میں یہود پر چوٹ ہے کہ وہ لوگ جنھیں تم اُمی کہتے ہو اور اپنے مقابلے میں ذلیل اور حقیر سمجھتے ہو انھی میں اس اللہ نے ایک رسول مبعوث کیا ہے جو {” الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ “} اور {” الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ “} ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے، جسے وہ چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ تمھیں اس کا ٹھیکیدار کس نے اور کب بنایاہے کہ جسے تم چاہو اسی کو یہ فضل عطا ہو، دوسرے کو عطا نہ ہو؟
رہی یہ بات کہ اگرمان بھی لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب و عجم کے امیین کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، تو اس سے آپ کا یہود و نصاریٰ کی طرف مبعوث ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے الفاظ سے یہ ظاہر ہے کہ آپ یہود کے سوا سب لوگوں کی طرف رسول ہیں، مگر اس میں یہ صراحت نہیں کہ آپ یہود و نصاریٰ کی طرف رسول نہیں۔ یہ مطلب اس آیت کا مفہوم مخالف ہے جو حجت نہیں ہوتا، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ» [العنکبوت: ۴۸] ”اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔“ اب اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے نہیں لکھتے بلکہ بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے تو یہ غلط ہے۔ خصوصاً یہاں تو مفہوم مخالف مراد لیا ہی نہیں جا سکتا، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ» [سبا: ۲۸] ”اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے اس حال میں کہ خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ اور فرمایا: «قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا» [الأعراف: ۱۵۸] ”کہہ دے اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔“ ان دونوں آیات کی تفسیر میں مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
➋ سورت کی پہلی آیت {” يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ “} میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات کی اس آیت میں مذکور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اس اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور اس کے ہر عیب اور کمی سے پاک ہونے کی شہادت دے رہی ہے جو {” الْمَلِكِ “} (بادشاہ) ہے۔ (دیکھیے حشر: ۲۳) اپنی سلطنت کا انتظام کرنے والا، اس میں اپنے احکام بھیجنے والاہے اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جسے چاہتا ہے منتخب فرماتا ہے۔ اس نے اپنے شہنشاہی اختیار کے تحت ان لوگوں میں سے رسول بھیجنے کے بجائے جو اپنے آپ کو اہلِ کتا ب، پڑھے لکھے اور مہذب سمجھتے تھے اور دوسروں کو حقیر جانتے تھے، اُمی لوگوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیج دیا۔ {” يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ “} جو اس کے احکام پر مشتمل آیات انھیں مسلسل پڑھ کر سناتا ہے۔ {” الْقُدُّوْسِ “} وہ بادشاہ قدوس ہے (دیکھیے حشر: ۲۳) اس نے ان میں ایسا رسول بھیجا جو انھیں ہر قسم کے کفر و شرک اور تمام قباحتوں اور آلودگیوں سے پاک کرتا ہے۔ {” الْعَزِيْزِ “} (سب پر غالب) ہے، اس کا رسول انھیں اس کی کتاب کی تعلیم دیتا ہے جو اس کے کامل غلبے کی دلیل اور ترجمان ہے۔ {” الْحَكِيْمِ “} (کمال حکمت والا) ہے، اس کا رسول انھیں اس کی عطا کردہ حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
➌ قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات چار مقامات پر آئی ہیں، سورۂ بقرہ کی آیت (۱۲۹) میں اہلِ عرب کو اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ ان صفات والا پیغمبر وہ ہے جس کے لیے ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے کہ وہ اسے ان کی اولاد میں مبعوث فرمائے، سوتمھیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ سورۂ بقرہ ہی کی آیت (۱۵۱) میں فرمایا کہ ان اوصاف والا پیغمبر عطا کرنے پر میری نعمت کو پہچانو، مجھے یاد رکھو، میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری مت کرو۔ سورۂ آلِ عمران(۱۶۴) میں یہ احسان یاد دلایا کہ اتنی اعلیٰ صفات کا رسول اس نے خود ان میں مبعوث فرمایا، جس پر وہ سب احوال گزرتے ہیں جو بطورِ انسان ان سب پر گزرتے ہیں۔ اُحد اور دوسرے مقامات پر دوسروں کی طرح اسے بھی زخم کھانا پڑتے ہیں، سو وہ ان کے لیے ایک کامل نمونہ ہے۔ چوتھا مقام یہ آیت ہے جس میں یہود کے زعم کو باطل کرنا مقصود ہے، اس لیے بعد میں {” مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ “} سے ان کی نالائقیوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔
➍ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب امیین میں پیدا کرنے اور انھیں اسلام کی دعوت کے اوّلین مخاطب بنانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کار فرما تھی۔ تفسیر قاسمی میں یہ بات نہایت خوبصورت اور جامع الفاظ میں بیان کی گئی ہے، وہ لکھتے ہیں: {” وَ إِنَّمَا أُوْثِرَتْ بِعْثَتُهُ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِ فِي الْأُمِّيِّيْنَ، لِأَنَّهُمْ أَحَدُّ النَّاسِ أَذْهَانًا، وَأَقْوَاهُمْ جَنَانًا، وَ أَصْفَاهُمْ فِطْرَةً، وَأَفْصَحُهُمْ بَيَانًا، لَمْ تَفْسُدْ فِطْرَتُهُمْ بِغَوَاشِي الْمُتَحَضِّرِيْنَ وَلَا بِأَفَانِيْنِ تَلَاعُبِ اُولٰئِكَ الْمُتَمَدِّنِيْنَ، وَلِذَا اِنْقَلَبُوْا إِلٰي النَّاسِ بَعْدَ الإِْسْلَامِ بِعِلْمٍ عَظِيْمٍ وَحِكْمَةٍ بَاهِرَةٍ، وَسِيَاسَةٍ عَادِلَةٍ، قَادُوْا بِهَا مُعَظَّمَ الْاُمَمِ وَدَوَّخُوْا بِهَا أَعْظَمَ الْمَمَالِكِ “} ”اُمی لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو اس لیے ترجیح دی گئی کہ وہ ذہن کے لحاظ سے سب لوگوں سے تیز، دل کے لحاظ سے سب سے قوی، فطرت کے لحاظ سے سب سے صاف اور بیان میں سب سے زیادہ فصیح تھے۔ ان کی فطرت شہری لوگوں کی آلودگیوں سے بگڑی نہیں تھی اور نہ ہی ان نام نہاد تمدن و تہذیب والوں کے مختلف کھیل تماشوں سے فاسد ہوئی تھی۔ اسی لیے اسلام لانے کے بعد وہ لوگوں کے پاس ایسا عظیم علم، حیران کن حکمت و دانائی اور عدل پر مبنی سیاست لے کر آئے جس کے ساتھ انھوں نے دنیا کی بڑی بڑی اقوام کی قیادت کی اور عظیم ترین ممالک کو اپنا زیر ِفرمان بنا کر چھوڑا۔“
➍ { وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ:” اِنْ “} اصل میں {”إِنَّهُمْ“} ہے، تخفیف کے لیے {”إِنَّ“} کو {”إِنْ“} کر دیا اور اس کے اسم {”هُمْ“} ضمیر کو حذف کر دیا اور اس بات کی دلیل کہ یہ {” اِنْ “} نافیہ یا شرطیہ نہیں وہ ” لام“ ہے جو {” لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ “} پر آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اُمی لوگ کس طرح کی کھلی گمراہی میں تھے اس کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں بیان کیا، جب اس بادشاہ نے کفار قریش کے وفد کی شکایت پر انھیں ساتھیوں سمیت بلا کر حقیقت حال دریافت کی۔ انھوں نے فرمایا: [أَيُّهَا الْمَلِكُ! كُنَّا قَوْمًا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ، وَنَأْكُلُ الْمَيْتَةَ وَنَأْتِي الْفَوَاحِشَ، وَنَقْطَعُ الأَرْحَامَ، وَنُسِيْءُ الْجِوَارَ، يَأْكُلُ الْقَوِيُّ مِنَّا الضَّعِيْفَ، فَكُنَّا عَلٰی ذٰلِكَ حَتّٰی بَعَثَ اللّٰهُ إِلَيْنَا رَسُوْلاً مِّنَّا نَعْرِفُ نَسَبَهُ، وَصِدْقَهُ، وَأَمَانَتَهُ، وَعَفَافَهُ، فَدَعَانَا إِلَی اللّٰهِ لِنُوَحِّدَهُ، وَنَعْبُدَهُ، وَنَخْلَعَ مَا كُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُوْنِهِ مِنَ الْحِجَارَةِ وَالْأَوْثَانِ] [مسند أحمد: 202/1، ح: ۱۷۴۰، قال المحقق إسنادہ حسن] ”اے بادشاہ! ہم جاہلیت والے لوگ تھے، بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، فواحش کا ارتکاب کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، پڑوسیوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے قوت والا کمزور کو کھا جاتا تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے نسب، صدق، امانت اور پاک دامنی کو ہم جانتے تھے۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اسے ایک مانیں، اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور تھانوں سے یکسر علیحدگی اختیار کریں جن کی عبادت اللہ کو چھوڑ کر ہمارے آباواجداد کرتے تھے (اس کے بعد جعفر رضی اللہ عنہ نے انھیں اسلام کے احکام بیان فرمائے)۔“
زیر تفسیر آیات میں {” الْاُمِّيّٖنَ “} سے مراد صرف عرب نہیں، یہودی اصطلاح کے مطابق وہ سب لوگ ہیں جو یہودی نہیں، کیونکہ یہاں {” الْاُمِّيّٖنَ “} کے تحت دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے، یعنی {” هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ “} میں عرب ”امیین“ کا ذکر ہے، جنھیں یہ شرف حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نسباً ان میں سے تھے اور اس سے اگلی آیت میں غیر عرب امیین کا ذکر ہے جو بعد میں اسلام لانے والے تھے، اس میں فرمایا: «وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ» ”اور ان (امیین) میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (اس رسول کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔“ اس کی دلیل کہ ان امیین سے مراد غیر عرب ہیں، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں: [كُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ: «وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ» قَالَ قُلْتُ مَنْ هُمْ يَا رَسُوْلَ اللَّهِ!؟ فَلَمْ يُرَاجِعْهُ حَتّٰی سَأَلَ ثَلاَثًا، وَفِيْنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَضَعَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلٰی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هٰؤُلاَءِ] [بخاري، التفسیر، سورۃ الجمعۃ: ۴۸۹۷] ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے توآپ پر سورۂ جمعہ نازل ہوئی: «وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ» میں نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟“ آپ نے جواب نہ دیا، یہاں تک کہ میں نے تین مرتبہ سوال کیا۔ ہم میں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھا، پھر فرمایا:”اگر ایمان ثریا کے پاس بھی ہوتا تو ان لوگوں میں سے کچھ آدمی یا (فرمایا) ایک آدمی اسے ضرور حاصل کر لیتا۔“ دراصل اس سورت میں یہود پر چوٹ ہے کہ وہ لوگ جنھیں تم اُمی کہتے ہو اور اپنے مقابلے میں ذلیل اور حقیر سمجھتے ہو انھی میں اس اللہ نے ایک رسول مبعوث کیا ہے جو {” الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ “} اور {” الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ “} ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے، جسے وہ چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ تمھیں اس کا ٹھیکیدار کس نے اور کب بنایاہے کہ جسے تم چاہو اسی کو یہ فضل عطا ہو، دوسرے کو عطا نہ ہو؟
رہی یہ بات کہ اگرمان بھی لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب و عجم کے امیین کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، تو اس سے آپ کا یہود و نصاریٰ کی طرف مبعوث ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کے الفاظ سے یہ ظاہر ہے کہ آپ یہود کے سوا سب لوگوں کی طرف رسول ہیں، مگر اس میں یہ صراحت نہیں کہ آپ یہود و نصاریٰ کی طرف رسول نہیں۔ یہ مطلب اس آیت کا مفہوم مخالف ہے جو حجت نہیں ہوتا، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ» [العنکبوت: ۴۸] ”اور تو اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتا تھا اور نہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتا تھا۔“ اب اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے نہیں لکھتے بلکہ بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے تو یہ غلط ہے۔ خصوصاً یہاں تو مفہوم مخالف مراد لیا ہی نہیں جا سکتا، کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ» [سبا: ۲۸] ”اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے اس حال میں کہ خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ اور فرمایا: «قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا» [الأعراف: ۱۵۸] ”کہہ دے اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔“ ان دونوں آیات کی تفسیر میں مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
➋ سورت کی پہلی آیت {” يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ “} میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات کی اس آیت میں مذکور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اس اللہ کی تسبیح کر رہی ہے اور اس کے ہر عیب اور کمی سے پاک ہونے کی شہادت دے رہی ہے جو {” الْمَلِكِ “} (بادشاہ) ہے۔ (دیکھیے حشر: ۲۳) اپنی سلطنت کا انتظام کرنے والا، اس میں اپنے احکام بھیجنے والاہے اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جسے چاہتا ہے منتخب فرماتا ہے۔ اس نے اپنے شہنشاہی اختیار کے تحت ان لوگوں میں سے رسول بھیجنے کے بجائے جو اپنے آپ کو اہلِ کتا ب، پڑھے لکھے اور مہذب سمجھتے تھے اور دوسروں کو حقیر جانتے تھے، اُمی لوگوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیج دیا۔ {” يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ “} جو اس کے احکام پر مشتمل آیات انھیں مسلسل پڑھ کر سناتا ہے۔ {” الْقُدُّوْسِ “} وہ بادشاہ قدوس ہے (دیکھیے حشر: ۲۳) اس نے ان میں ایسا رسول بھیجا جو انھیں ہر قسم کے کفر و شرک اور تمام قباحتوں اور آلودگیوں سے پاک کرتا ہے۔ {” الْعَزِيْزِ “} (سب پر غالب) ہے، اس کا رسول انھیں اس کی کتاب کی تعلیم دیتا ہے جو اس کے کامل غلبے کی دلیل اور ترجمان ہے۔ {” الْحَكِيْمِ “} (کمال حکمت والا) ہے، اس کا رسول انھیں اس کی عطا کردہ حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
➌ قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات چار مقامات پر آئی ہیں، سورۂ بقرہ کی آیت (۱۲۹) میں اہلِ عرب کو اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ ان صفات والا پیغمبر وہ ہے جس کے لیے ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے کہ وہ اسے ان کی اولاد میں مبعوث فرمائے، سوتمھیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ سورۂ بقرہ ہی کی آیت (۱۵۱) میں فرمایا کہ ان اوصاف والا پیغمبر عطا کرنے پر میری نعمت کو پہچانو، مجھے یاد رکھو، میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری مت کرو۔ سورۂ آلِ عمران(۱۶۴) میں یہ احسان یاد دلایا کہ اتنی اعلیٰ صفات کا رسول اس نے خود ان میں مبعوث فرمایا، جس پر وہ سب احوال گزرتے ہیں جو بطورِ انسان ان سب پر گزرتے ہیں۔ اُحد اور دوسرے مقامات پر دوسروں کی طرح اسے بھی زخم کھانا پڑتے ہیں، سو وہ ان کے لیے ایک کامل نمونہ ہے۔ چوتھا مقام یہ آیت ہے جس میں یہود کے زعم کو باطل کرنا مقصود ہے، اس لیے بعد میں {” مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ “} سے ان کی نالائقیوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔
➍ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام انسانوں کے لیے ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب امیین میں پیدا کرنے اور انھیں اسلام کی دعوت کے اوّلین مخاطب بنانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کار فرما تھی۔ تفسیر قاسمی میں یہ بات نہایت خوبصورت اور جامع الفاظ میں بیان کی گئی ہے، وہ لکھتے ہیں: {” وَ إِنَّمَا أُوْثِرَتْ بِعْثَتُهُ صَلَوَاتُ اللّٰهِ عَلَيْهِ فِي الْأُمِّيِّيْنَ، لِأَنَّهُمْ أَحَدُّ النَّاسِ أَذْهَانًا، وَأَقْوَاهُمْ جَنَانًا، وَ أَصْفَاهُمْ فِطْرَةً، وَأَفْصَحُهُمْ بَيَانًا، لَمْ تَفْسُدْ فِطْرَتُهُمْ بِغَوَاشِي الْمُتَحَضِّرِيْنَ وَلَا بِأَفَانِيْنِ تَلَاعُبِ اُولٰئِكَ الْمُتَمَدِّنِيْنَ، وَلِذَا اِنْقَلَبُوْا إِلٰي النَّاسِ بَعْدَ الإِْسْلَامِ بِعِلْمٍ عَظِيْمٍ وَحِكْمَةٍ بَاهِرَةٍ، وَسِيَاسَةٍ عَادِلَةٍ، قَادُوْا بِهَا مُعَظَّمَ الْاُمَمِ وَدَوَّخُوْا بِهَا أَعْظَمَ الْمَمَالِكِ “} ”اُمی لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو اس لیے ترجیح دی گئی کہ وہ ذہن کے لحاظ سے سب لوگوں سے تیز، دل کے لحاظ سے سب سے قوی، فطرت کے لحاظ سے سب سے صاف اور بیان میں سب سے زیادہ فصیح تھے۔ ان کی فطرت شہری لوگوں کی آلودگیوں سے بگڑی نہیں تھی اور نہ ہی ان نام نہاد تمدن و تہذیب والوں کے مختلف کھیل تماشوں سے فاسد ہوئی تھی۔ اسی لیے اسلام لانے کے بعد وہ لوگوں کے پاس ایسا عظیم علم، حیران کن حکمت و دانائی اور عدل پر مبنی سیاست لے کر آئے جس کے ساتھ انھوں نے دنیا کی بڑی بڑی اقوام کی قیادت کی اور عظیم ترین ممالک کو اپنا زیر ِفرمان بنا کر چھوڑا۔“
➍ { وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ:” اِنْ “} اصل میں {”إِنَّهُمْ“} ہے، تخفیف کے لیے {”إِنَّ“} کو {”إِنْ“} کر دیا اور اس کے اسم {”هُمْ“} ضمیر کو حذف کر دیا اور اس بات کی دلیل کہ یہ {” اِنْ “} نافیہ یا شرطیہ نہیں وہ ” لام“ ہے جو {” لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ “} پر آیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اُمی لوگ کس طرح کی کھلی گمراہی میں تھے اس کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں بیان کیا، جب اس بادشاہ نے کفار قریش کے وفد کی شکایت پر انھیں ساتھیوں سمیت بلا کر حقیقت حال دریافت کی۔ انھوں نے فرمایا: [أَيُّهَا الْمَلِكُ! كُنَّا قَوْمًا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ، وَنَأْكُلُ الْمَيْتَةَ وَنَأْتِي الْفَوَاحِشَ، وَنَقْطَعُ الأَرْحَامَ، وَنُسِيْءُ الْجِوَارَ، يَأْكُلُ الْقَوِيُّ مِنَّا الضَّعِيْفَ، فَكُنَّا عَلٰی ذٰلِكَ حَتّٰی بَعَثَ اللّٰهُ إِلَيْنَا رَسُوْلاً مِّنَّا نَعْرِفُ نَسَبَهُ، وَصِدْقَهُ، وَأَمَانَتَهُ، وَعَفَافَهُ، فَدَعَانَا إِلَی اللّٰهِ لِنُوَحِّدَهُ، وَنَعْبُدَهُ، وَنَخْلَعَ مَا كُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُوْنِهِ مِنَ الْحِجَارَةِ وَالْأَوْثَانِ] [مسند أحمد: 202/1، ح: ۱۷۴۰، قال المحقق إسنادہ حسن] ”اے بادشاہ! ہم جاہلیت والے لوگ تھے، بتوں کی عبادت کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، فواحش کا ارتکاب کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، پڑوسیوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے قوت والا کمزور کو کھا جاتا تھا۔ ہم اسی حال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے نسب، صدق، امانت اور پاک دامنی کو ہم جانتے تھے۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اسے ایک مانیں، اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور تھانوں سے یکسر علیحدگی اختیار کریں جن کی عبادت اللہ کو چھوڑ کر ہمارے آباواجداد کرتے تھے (اس کے بعد جعفر رضی اللہ عنہ نے انھیں اسلام کے احکام بیان فرمائے)۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
2۔ 1 اُ مِّیِّینَ سے مراد عرب ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ ان کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت دوسروں کے کے لئے نہیں تھی، لیکن چونکہ اولین مخاطب وہ تھے اس لئے اللہ کا ان پر زیادہ احسان تھا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
قرآن حکیم آفاقی کتاب ہدایت ہے ٭٭
ہر بے زبان اور ناطق چیز اللہ تعالیٰ عزوجل کی پاکیزگی بیان کرتی رہتی ہے جیسے اور جگہ بھی فرمایا ہے کہ «وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ» ’ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ نہ کرتی ہو ‘، [17-الاسراء:44] تمام مخلوق خواہ آسمان کی ہو، خواہ زمین کی، اس کی تعریفوں اور پاکیزگیوں کے بیان میں مصروف و مشغول ہے، وہ آسمان و زمین کا بادشاہ اور ان دونوں میں اپنا پورا تصرف اور اٹل حکم جاری کرنے والا ہے، وہ تمام نقصانات سے پاک اور بےعیب ہے، تمام صفات کمالیہ کے ساتھ موصوف ہے، وہ عزیز و حکیم ہے۔ اس کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے۔
«الْأُمِّيُّونَ» سے مراد عرب ہیں۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے «وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَاب وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدْ اِهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْك الْبَلَاغ وَاَللَّه بَصِير بِالْعِبَادِ» [3-آل عمران:20]، یعنی ’ تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا؟ اور وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ ‘ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لیے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لیے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے۔
جیسے اور جگہ ہے «وَإِنَّهُ لَذِكْر لَك وَلِقَوْمِك» [43-الزخرف:44] یعنی ’ یہ تیرے لیے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لیے بھی ‘، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔
اسی طرح اور جگہ فرمان ہے «وَأَنْذِرْ عَشِيرَتك الْأَقْرَبِينَ» [26-الشعراء:214] ’ اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے ‘، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے، ارشاد باری ہے «قُلْ يَا أَيّهَا النَّاس إِنِّي رَسُول اللَّه إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» [7-الأعراف:158] ’ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ اور جگہ فرمان ہے «لِأُنْذِركُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ» [6-الأنعام:19] یعنی ’ اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے ‘، اسی طرح قرآن کی بابت فرمایا «وَمَنْ يَكْفُر بِهِ مِنْ الْأَحْزَاب فَالنَّار مَوْعِده» [11-ھود:17] ’ تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے ‘، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے صاف ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ «صَلَوَات اللَّه وَسَلَامه عَلَيْهِ» سورۃ الانعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کر چکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
«الْأُمِّيُّونَ» سے مراد عرب ہیں۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے «وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَاب وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدْ اِهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْك الْبَلَاغ وَاَللَّه بَصِير بِالْعِبَادِ» [3-آل عمران:20]، یعنی ’ تو اہل کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے کہہ دے کہ کیا تم نے اسلام قبول کیا؟ اور وہ مسلمان ہو جائیں تو وہ راہ راست پر ہیں اور اگر منہ پھیر لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اور بندوں کی پوری دیکھ بھال کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ ‘ یہاں عرب کا ذکر کرنا اس لیے نہیں کہ غیر عرب کی نفی ہو بلکہ صرف اس لیے کہ ان پر احسان و اکرام بہ نسبت دوسروں کے بہت زیادہ ہے۔
جیسے اور جگہ ہے «وَإِنَّهُ لَذِكْر لَك وَلِقَوْمِك» [43-الزخرف:44] یعنی ’ یہ تیرے لیے بھی نصیحت ہے اور تیری قوم کے لیے بھی ‘، یہاں بھی قوم کی خصوصیت نہیں کیونکہ قرآن کریم سب جہان والوں کے لیے نصیحت ہے۔
اسی طرح اور جگہ فرمان ہے «وَأَنْذِرْ عَشِيرَتك الْأَقْرَبِينَ» [26-الشعراء:214] ’ اپنے قرابت دار اور کنبہ والوں کو ڈرا دے ‘، یہاں بھی یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کی تنبیہہ صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے بلکہ عام ہے، ارشاد باری ہے «قُلْ يَا أَيّهَا النَّاس إِنِّي رَسُول اللَّه إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» [7-الأعراف:158] ’ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ اور جگہ فرمان ہے «لِأُنْذِركُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ» [6-الأنعام:19] یعنی ’ اس کے ساتھ میں تمہیں خبردار کر دوں اور ہر اس شخص کو جسے یہ پہنچے ‘، اسی طرح قرآن کی بابت فرمایا «وَمَنْ يَكْفُر بِهِ مِنْ الْأَحْزَاب فَالنَّار مَوْعِده» [11-ھود:17] ’ تمام گروہ میں سے جو بھی اس کا انکار کرے وہ جہنمی ہے ‘، اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں، جن سے صاف ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت روئے زمین کی طرف تھی، کل مخلوق کے آپ پیغمبر تھے، ہر سرخ و سیاہ کی طرف آپ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ «صَلَوَات اللَّه وَسَلَامه عَلَيْهِ» سورۃ الانعام کی تفسیر میں اس کا پورا بیان ہم کر چکے ہیں اور بہت سی آیات و احادیث وہاں وارد کی ہیں۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»
میں دعائے ابراہیمی بن کر آیا ٭٭
یہاں یہ فرمانا کہ ان پڑھوں یعنی عربوں میں اپنا رسول بھیجا اس لیے ہے کہ خلیل اللہ کی دعا کی قبولیت معلوم ہو جائے، آپ نے اہل مکہ کے لیے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ! ان میں ایک رسول ان ہی میں سے بھیج جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سنائے، انہیں پاکیزگی سکھائے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دے، پس اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور جبکہ مخلوق کو نبی اللہ کی سخت حاجت تھی سوائے چند اہل کتاب کے جو عیسیٰ علیہ السلام کے سچے دین پر قائم تھے اور افراط تفریط سے الگ تھی باقی تمام دنیا دین حق کو بھلا بیٹھی تھی اور اللہ کی مرضی کے خلاف کاموں میں مبتلا تھی اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، آپ نے ان اَن پڑھوں کو اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ سنائیں انہیں پاکیزگی سکھائی اور کتاب و حکمت کا معلم بنا دیا حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے، سنئیے عرب ابراہیم علیہ السلام کے دین کے دعویدار تھے لیکن حالت یہ تھی کہ اصل دین کو خورد برد کر چکے تھے اس میں اس قدر تبدل و تغیر کر دیا تھا کہ توحید شرک سے اور یقین شک سے بدل چکا تھا، ساتھ ہی بہت سی اپنی ایجاد کردہ بدعتیں دین اللہ میں شامل کر دی تھیں، اسی طرح اہل کتاب نے بھی اپنی کتابوں کو بدل دیا تھا ان میں تحریف کر لی تھی اور متغیر کر دیا تھا ساتھ ہی معنی میں بھی الٹ پھیر کر لیا تھا پس اللہ پاک نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم الشان شریعت اور کامل مکمل دین دے کر دنیا والوں کی طرف بھیجا کہ اس فساد کی آپ اصلاح کریں، اہل دنیا کو اصل احکام الٰہی پہنچائیں اللہ کی مرضی اور نامرضی کے احکام لوگوں کو معلوم کرا دیں، جنت سے قریب کرنے والے عذاب سے نجات دلوانے والے تمام اعمال بتائیں، ساری مخلوق کے ہادی بنیں اصول و فروع سب سکھائیں، کوئی چھوٹی بڑی بات باقی نہ چھوڑیں۔ تمام تر شکوک و شبہات سب کے دور کر دیں اور ایسے دین پر لوگوں کو ڈال دیں جن میں ہر بھلائی موجود ہو، اس بلند و بالا خدمت کے لیے آپ میں وہ برتریاں اور بزرگیاں جمع کر دیں جو نہ آپ سے پہلے کسی میں تھیں، نہ آپ کے بعد کسی میں ہو سکیں، اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ ہمیشہ درود و سلام نازل فرماتا رہے آمین!
اہل فارس کی عظمت ٭٭
دوسری آیت کی تفسیر میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ الجمعہ نازل ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی تو لوگوں نے پوچھا کہ «وَآخَرِينَ مِنْهُمْ» سے کیا مراد ہے تین مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا، تب آپ نے اپنا ہاتھ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سر پر رکھا اور فرمایا: ”اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہوتا تو بھی ان لوگوں میں سے ایک یا کئی ایک پا لیتے۔“ [صحیح بخاری:4898]
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری تمام دنیا والوں کی طرف ہے صرف عرب کے لیے مخصوص نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں فارس والوں کو فرمایا۔ اسی عام بعثت کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارس و روم کے بادشاہوں کے نام اسلام قبول کرنے کے فرامین بھیجے۔
مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی عرب کے سوا کے جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ «إِنَّ فِي أَصْلَاب أَصْلَاب أَصْلَاب رِجَال وَنِسَاء مِنْ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّة بِغَيْرِ حِسَاب» اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے [طبرانی:6005] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ «وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» [الجمعہ:3]۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے۔
پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا، اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا، یہ خاص اللہ کا فضل ہے، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔
مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ بھی فرماتے ہیں اس سے مراد عجمی لوگ ہیں یعنی عرب کے سوا کے جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں اور آپ کی وحی کی تصدیق کریں۔ ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ «إِنَّ فِي أَصْلَاب أَصْلَاب أَصْلَاب رِجَال وَنِسَاء مِنْ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّة بِغَيْرِ حِسَاب» اب سے تین تین پشتوں کے بعد آنے والے میرے امتی بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے [طبرانی:6005] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ «وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ» [الجمعہ:3]۔ وہ اللہ عزت و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اور اپنی تقدیر میں غالب با حکمت ہے۔
پھر فرمان ہے یہ اللہ کا فضل ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی زبردست عظیم الشان نبوت کے ساتھ سرفراز فرمانا، اور اس امت کو اس فضل عظیم سے بہرہ ور کرنا، یہ خاص اللہ کا فضل ہے، اللہ اپنا فضل جسے چاہے دے، وہ بہت بڑے فضل و کرم والا ہے۔