ترجمہ و تفسیر — سورۃ الانعام (6) — آیت 5
فَقَدۡ کَذَّبُوۡا بِالۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ؕ فَسَوۡفَ یَاۡتِیۡہِمۡ اَنۡۢبٰٓؤُا مَا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
پس بے شک انھوں نے حق کو جھٹلا دیا، جب وہ ان کے پاس آیا، تو عنقریب ان کے پاس اس کی خبریں آجائیں گی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جب ان کے پاس حق آیا تو اس کو بھی جھٹلا دیا سو ان کو ان چیزوں کا جن سے یہ استہزا کرتے ہیں عنقریب انجام معلوم ہو جائے گا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
انہوں نے اس سچی کتاب کو بھی جھٹلایا جب کہ وه ان کے پاس پہنچی، سو جلدی ہی ان کو خبر مل جائے گی اس چیز کی جس کے ساتھ یہ لوگ استہزا کیا کرتے تھے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 5) {فَقَدْ كَذَّبُوْا بِالْحَقِّ …:} اوپر کی آیات میں توحید اور آخرت کو ثابت کیا ہے، اس آیت میں تقلید کا باطل ہونا ثابت ہو رہا ہے۔(رازی) حق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر اترنے والی کتاب ہیں۔ کفار جس چیز پر ہنستے تھے وہ آخرت اور اس میں پیش آنے والے معاملات تھے اور اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے بھی جو اس نے قرآن میں دین اسلام کے غالب اور دشمنوں کے مغلوب ہونے سے متعلق کیے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اب تو یہ کفار اس وعدے کو محض مذاق سمجھتے ہوئے اس پر ہنستے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن عنقریب مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا جائے گا اور پھر ایسے واقعات پیش آئیں گے کہ جن سے یہ وعدہ حقیقت بن کر ان کے سامنے آجائے گا اور آنکھیں بند ہونے کی دیر ہے کہ آخرت بھی، جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ان کے سامنے آجائے گی۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

5۔ 1 یعنی اس نکتہ چینی اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استھزا نہ کرتے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

5۔ چنانچہ جب ان کے پاس حق آ گیا تو اسے انہوں نے جھٹلا دیا اور جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں عنقریب انہیں اس کی خبریں [5] پہنچیں گی۔
[5] حق سے کیا مراد ہے ؟
حق سے مراد قرآن کریم بھی ہو سکتا ہے اور رسول اللہ کی ذات بھی۔ ان دونوں کا دعویٰ یہ تھا کہ اسلام ہی بالآخر غالب آ کے رہے گا۔ کفار مکہ بالخصوص اس بات کا مذاق اڑاتے تھے کہ یہ کمزور سی مٹھی بھر جماعت ہے جسے کھانے پینے کی چیزیں بھی میسر نہیں آتیں، وہ اگر محلوں کے خواب دیکھے تو یہ دیوانگی نہیں تو کیا ہے؟ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عنقریب ان لوگوں کو ایسی خبریں آنے لگیں گی۔
مسلمانوں کی کامیابی کی پیشین گوئی :۔
واضح رہے کہ یہ پوری سورت ماسوائے چھ آیات کے ﴿وَمَا قَدَرُوْا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهِ سے تین آیتیں اور ﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ سے تین آیتیں ساری کی ساری ایک ہی رات نازل ہوئی تھی۔ اور اس کا زمانہ نزول تقریباً ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے جبکہ مسلمان انتہائی مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان کے اکثر ساتھی حبشہ کی طرف ہجرت کر کے وہاں مقیم ہو چکے تھے اور مکہ میں کفار نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ اس وقت قرآن نے جو یہ پیشین گوئی فرمائی۔ جو جنگ بدر سے ہی پوری ہونا شروع ہو گئی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خبر عرب بھر میں پھیل گئی۔ حتیٰ کہ آپ کی زندگی ہی میں اسلام کو پورے عرب پر غلبہ حاصل ہو گیا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

کفار کو نافرمانی پر سخت انتباہ ٭٭
کفار کی سرکشی کی انتہا بیان ہو رہی ہے کہ ہر امر کی تکذیب پر گویا انہوں نے کمر باندھ لی ہے، نیت کر کے بیٹھے ہیں کہ جو نشانی دیکھیں گے، اسی کا انکار کریں گے، ان کی یہ خطرناک روش انہیں ایک دن ذلیل کرے گی اور وہ ذائقہ آئے گا کہ ہونٹ کاٹتے رہیں، یہ یوں نہ سمجھیں کہ ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے نہیں بلکہ عنقریب انہیں اللہ کی پکڑ ہوگی، کیا ان سے پہلے کے ایسے سرکشوں کے حالات ان کے کان میں نہیں پڑے؟ کیا ان کے عبرتناک انجام ان کی نگاہوں کے سامنے نہیں؟
وہ تو قوت طاقت میں اور زور میں ان سے بہت بڑھے چڑھے ہوئے تھے، وہ اپنی رہائش میں اور زمین کو بسانے میں ان سے کہیں زیادہ آگے تھے، ان کے لاؤ لشکر، ان کی جاہ و عزت، غرور و تمکنت ان سے کہیں زیادہ تھی، ہم نے انہیں خوب مست بنا رکھا تھا، بارشیں پے در پے حسن ضرورت ان پر برابر برسا کرتی تھیں، زمین ہر وقت تروتازہ رہتی تھی چاروں طرف پانی کی ریل پیل کی وجہ سے آبشاریں اور چشمے صاف شفاف پانی کے بہتے رہتے تھے۔
جب وہ تکبر میں آ گئے، ہماری نشانیوں کی حقارت کرنے لگے تو آخر نتیجہ یہ ہوا کہ برباد کر دیئے گئے۔ تہس نہس ہو گئے، بھوسی اڑ گئی۔ لوگوں میں ان کے فسانے باقی رہ گئے اور ان میں سے ایک بھی نہ بچا حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے اور ان کے بعد ان کے قائم مقام اور زمانہ آیا۔ اگر وہ بھی اسی روش پر چلا تو یہی سلوک ان کے ساتھی بھی ہوتا، اتنی نظریں جب تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں پھر بھی تم عبرت حاصل نہیں کرتے، یہ کس قدر تمہاری غفلت ہے، یاد رکھو تم کچھ اللہ کے ایسے لاڈلے نہیں ہو کہ جن کاموں کی وجہ سے اوروں کو وہ تباہ کر دے وہ کام تم کرتے رہو اور تباہی سے بچ جاؤ۔
اسی طرح جن رسولوں کو جھٹلانے اور ان کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے ان رسولوں سے کسی طرح یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کم درجے کے نہیں بلکہ ان سے زیادہ اللہ کے ہاں یہ با عزت ہیں۔ یقین مانو کہ پہلوں سے بھی سخت اور نہایت سخت عذاب تم پر آئیں گے، پس تم اپنی اس غلط روش کو چھوڑ دو، یہ صرف اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہاری بدترین اور انتہائی شرارتوں کے باوجود تمہیں ڈھیل دے رکھی ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل