وَ ہُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ یَعۡلَمُ سِرَّکُمۡ وَ جَہۡرَکُمۡ وَ یَعۡلَمُ مَا تَکۡسِبُوۡنَ ﴿۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور آسمانوں میں اور زمین میں وہی اللہ ہے، تمھارے چھپے اور تمھارے کھلے کو جانتا ہے اور جانتا ہے جو تم کماتے ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور آسمانوں اور زمین میں وہی (ایک) خدا ہے تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتیں جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وه تمہارے پوشیده احوال کو بھی اور تمہارے ﻇاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 3){وَ هُوَ اللّٰهُ فِي السَّمٰوٰتِ وَ فِي الْاَرْضِ …:} اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کو ثابت کیا ہے، اس آیت میں اس کے علم کا کامل ہونا ثابت فرمایا ہے، یعنی وہی ہستی ہے جسے آسمانوں اور زمین میں اللہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ آیت تقریباً اس آیت کی ہم معنی ہے: «وَ هُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ» [الزخرف: ۸۴]”اور وہی ہے جو آسمانوں میں معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہی کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“ یعنی آسمانوں اور زمین میں ایک ہی ذات ہے جسے ”اللہ “ کہہ کر پکارا جاتا ہے، جس کی آسمانوں اور زمین دونوں میں حکومت ہے اور دونوں میں اس اکیلے ہی کی عبادت کی جاتی ہے، کیونکہ وہ تمھاری ہر چھپی یا کھلی بات کو اور تمھارے ہر عمل کو جانتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے علم کا کمال ثابت ہوتا ہے اور یہ کمال اس کے معبود برحق ہونے کی ایک دلیل ہے۔
بعض لوگ اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ ہے اور کوئی عرش وغیرہ نہیں، جس پر اللہ تعالیٰ بلند ہو، حالانکہ اس آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں، کیونکہ آیت میں اس کی ذات یا شخصیت کے آسمان و زمین میں ہونے کا بیان نہیں بلکہ زمین و آسمان میں اس کے ”الله“ یعنی معبود برحق ہونے کا بیان ہے، رہی اس کی ذات تو قرآن مجید میں اس کے عرش کا اور اللہ تعالیٰ کے اس کے اوپر ہونے کا واضح بیان ہے۔ قرآن کریم میں تقریباً اٹھارہ جگہ اللہ تعالیٰ کے عرش کا ذکر ہے، اور آٹھ جگہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے، اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کے اوپر ہے، البتہ اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے۔ اس لیے یہاں اس کے زمین و آسمان میں اللہ اور الٰہ ہونے کا مطلب یہی ہے کہ دونوں جگہ عبادت اسی کی کرنا لازم ہے اور دونوں جگہ وہی ہے جو کمال علم کی وجہ سے معبود برحق ہونے کا حق دار ہے۔
بعض لوگ اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ ہے اور کوئی عرش وغیرہ نہیں، جس پر اللہ تعالیٰ بلند ہو، حالانکہ اس آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں، کیونکہ آیت میں اس کی ذات یا شخصیت کے آسمان و زمین میں ہونے کا بیان نہیں بلکہ زمین و آسمان میں اس کے ”الله“ یعنی معبود برحق ہونے کا بیان ہے، رہی اس کی ذات تو قرآن مجید میں اس کے عرش کا اور اللہ تعالیٰ کے اس کے اوپر ہونے کا واضح بیان ہے۔ قرآن کریم میں تقریباً اٹھارہ جگہ اللہ تعالیٰ کے عرش کا ذکر ہے، اور آٹھ جگہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر ہے، اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کے اوپر ہے، البتہ اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے وہ ہر جگہ ہے۔ اس لیے یہاں اس کے زمین و آسمان میں اللہ اور الٰہ ہونے کا مطلب یہی ہے کہ دونوں جگہ عبادت اسی کی کرنا لازم ہے اور دونوں جگہ وہی ہے جو کمال علم کی وجہ سے معبود برحق ہونے کا حق دار ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
3۔ 1 اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے، جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے۔ یعنی اس کے علم و خبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ دلیل بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں میں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو سب کو جانتا ہے (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مثلا تفسیر طبری و ابن کثیر وغیرہ۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
3۔ وہی ایک اللہ ہے جو آسمانوں میں بھی (موجود) ہے اور زمین میں بھی۔ [3] وہ تمہارا باطن اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے اور وہ کچھ بھی جانتا ہے جو تم کرتے ہو
[3] اللہ کا ہر جگہ موجود ہونا :۔
انسان کے اوپر آسمان، اس کے نیچے زمین اور ان کے درمیان چاند سورج تارے اور ہوائیں غرض جو کچھ بھی انسان کو نظر آتا ہے ان سب کا انتظام و انصرام اللہ اکیلے کے ہاتھ میں ہے پھر وہ تمہارے ظاہر و باطن حتیٰ کہ دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ تبھی تو وہ ہر چیز کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہے اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے بعض لوگوں کو یہ دھوکہ ہوا کہ اللہ بذات خود ہر جگہ موجود ہے اور بعض نے کہا کہ ہر شے میں موجود ہے جبکہ بہت سی دوسری آیات اور صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ اللہ کی ذات ساتوں آسمانوں سے ماوراء عرش پر ہے۔ رہی اللہ کی زمین و آسمان میں اور ہر جگہ اس کی موجودگی تو وہ اس کے علم اور اس کی قدرت کے لحاظ سے اور ان صفات میں کمال کی وجہ سے ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے علم کا یہ حال ہے کہ وہ عرش پر ہوتے ہوئے بھی رتی رتی چیز کو دیکھ رہا ہے اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ ہر پکارنے والے کی پکار سن رہا ہے ماسوائے چند گمراہ فرقوں کے جمہور اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔