ترجمہ و تفسیر — سورۃ الانعام (6) — آیت 2
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ ثُمَّ اَنۡتُمۡ تَمۡتَرُوۡنَ ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہی ہے جس نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک مدت مقرر کی اور ایک اور مدت اس کے ہاں مقرر ہے، پھر (بھی) تم شک کرتے ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر کر دیا اور ایک مدت اس کے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو خدا کے بارے میں) شک کرتے ہو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
وه ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا پھر ایک وقت معین کیا اور (دوسرا) معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے پھر بھی تم شک رکھتے ہو

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 2)➊ {هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ طِيْنٍ:} تمھیں مٹی سے پیدا کیا، یعنی آدم علیہ السلام کو، باقی سب لوگ چونکہ آدم ہی کی اولاد ہیں، اس لیے گویا سبھی مٹی سے پیدا ہوئے۔ { طِيْنٍ } میں تنوین تحقیر کے لیے ہے، اس لیے اس کا ترجمہ حقیر مٹی کہا گیا ہے۔
➋ {ثُمَّ قَضٰۤى اَجَلًا:} پھر ایک مدت مقرر کی، یعنی موت کا وقت اور ایک اور مدت اس کے ہاں مقرر ہے، یعنی قیامت کا وقت، جسے صرف وہ جانتا ہے، اس کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں۔ پھر بھی تم شک کرتے ہو، یعنی اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جس نے مٹی کی ایک مٹھی سے تمھیں پیدا کیا، وہ دوبارہ بھی تمھیں زندہ کر سکتا ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

2۔ 1 یعنی تمہارے باپ آدم ؑ کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے تم جو خوراک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جا کر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔ 2۔ 2 ٰ یعنی موت کا وقت۔ 2۔ 3 یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمٰی ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہوجائے گا۔ 2۔ 4 یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفار و مشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح سے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا۔ (سورة یسین)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

2۔ وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت مقرر کی (یعنی موت) اور ایک اور مدت اس کے ہاں معین ہے (یعنی قیامت) پھر بھی تم (اللہ کے بارے میں) شک [2] کرتے ہو
[2] دوسری دلیل :۔
یعنی ابو البشر سیدنا آدم ؑ کو مٹی سے بنایا۔ پھر تمہاری تمام غذائی ضروریات اسی مٹی سے پوری ہو رہی ہیں۔ پھر مرنے کے بعد بھی تم اسی مٹی میں مل جاؤ گے گویا اس نے تمہیں ایک بے جان چیز سے پیدا کیا اور تمہیں زندگی بخشی پھر اسی طرح زندہ کو بے جان چیز میں مدغم کر دے گا۔ پھر کیا تمہیں اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ دوبارہ تمہیں اسی مٹی سے اٹھائے گا اور ایسی زندگی بخشنے پر وہ قادر ہے۔ لہٰذا اگر سوچو تو تمہیں نہ اللہ کے بارے میں شک ہونا چاہیے نہ قیامت کے بارے میں۔ اس آیت میں پہلے لفظ اجل سے مراد انسان کی موت تک کا وقت ہے جو کہ ہر انسان کے لیے قیامت صغریٰ ہے چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ ”جو شخص مر گیا اس کی قیامت قائم ہو گئی“ اور اجل مسمیٰ سے مراد قیامت کا دن یا قیامت کبریٰ ہے۔ جبکہ سب لوگ قبروں سے اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اور اللہ کے حضور ان سے باز پرس اور ان کا محاسبہ ہو گا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اللہ کی بعض صفات ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کر رہا ہے گویا ہمیں اپنی تعریفوں کا حکم دے رہا ہے، اس کی تعریف جن امور پر ہے ان میں سے ایک زمین و آسمان کی پیدائش بھی ہے دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہے اندھیرے کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے لانا نور کی شرافت کی وجہ سے ہے۔
جیسے فرمان ربانی آیت «عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ» ۱؎ [16-النحل:48]‏‏‏‏ میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت «وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ» ۱؎ [6۔ الانعام:153]‏‏‏‏ میں۔
یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا، اللہ ہی قابل حمد ہے، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے، اس رب نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہدرحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ «قَضَى أَجَلًا» سے مراد مدت دنیا ہے اور «أَجَلٌ مُسَمًّى» سے مراد عمر انسان ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت «وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى» ۱؎ [6۔ الأنعام:60]‏‏‏‏ سے ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آیت «ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا» سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور «أَجَلٌ مُسَمًّى» سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے۔
«عِنْدَهُ» سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے، جیسے فرمایا آیت «قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ» ۱؎ [7۔ الأعراف:187]‏‏‏‏ یعنی ’ قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہی ہے ‘، سورۃ النازعات میں بھی فرمان ہے کہ «يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا فِيمَ أَنتَ مِن ذِكْرَاهَا إِلَىٰ رَبِّكَ مُنتَهَاهَا» ۱؎ [79-النازعات:42-44]‏‏‏‏ ’ لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے ‘۔ باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں۔
اس کے بعد جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے، نعوذ باللہ، اللہ کی برتر و بالا ذات اس سے بالکل پاک ہے۔
آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ» ۱؎ [43۔ الزخرف:84]‏‏‏‏ یعنی ’ وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے، یعنی آسمانوں میں جو ہیں، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے ‘۔
اب اس آیت کا اور جملہ «يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ» ۱؎ [6۔ الأنعام:3]‏‏‏‏ خبر ہو جائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ، جانتا ہے۔
پس «يَعْلَمُ» متعلق ہو گا «فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ» کا اور تقدیر آیت یوں ہو جائے گی آیت «وَهُوَ اللَّهُ یعلمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ» ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت «وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ» پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت «وَفِي الْأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ» امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے ’ تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل