اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحَآدُّوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ کُبِتُوۡا کَمَا کُبِتَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ وَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ۚ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، وہ ذلیل کیے جائیں گے، جیسے وہ لوگ ذلیل کیے گئے جو ان سے پہلے تھے اور بلاشبہ ہم نے واضح آیات نازل کی ہیں اور کافروں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ (اسی طرح) ذلیل کئے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کئے گئے تھے اور ہم نے صاف اور صریح آیتیں نازل کردی ہیں۔ جو نہیں مانتے ان کو ذلت کا عذاب ہوگا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وه ذلیل کیے جائیں گے جیسے ان سے پہلے کے لوگ ذلیل کیے گئے تھے، اور بیشک ہم واضح آیتیں اتار چکے ہیں اور کافروں کے لیے تو ذلت واﻻ عذاب ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 5) ➊ { اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ …: ” يُحَآدُّوْنَ “ ”حَدٌّ“} سے مشتق ہے جس کا معنی جانب ہے۔ باب مفاعلہ عموماً مقابلہ کے معنی کے لیے آتا ہے، یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول ایک جانب ہوں تو وہ ان کے مقابلے میں دوسری جانب ہوتے ہیں۔ {” كُبِتُوْا “ ”كَبَتَ يَكْبِتُ كَبْتًا“} (ض) ذلیل کرنا، ہلاک کرنا، لعنت کرنا، دھکے دے کر نکال دینا۔ اللہ تعالیٰ نے شروع سورت سے یہاں تک ظہار کی حرمت اور اس کے کفارہ کے احکام بیان فرمائے اور بتایا کہ یہ احکام اس لیے مقرر کیے گئے ہیں کہ لوگ ظہار اور اس جیسی بری رسوم سے باز آ جائیں جن کے وہ جاہلیت میں عادی تھے، تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کے خوگر ہو جائیں اور ان کے احکام پر اخلاص کے ساتھ عمل کریں۔ اس کے بعد فرمایا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کریں گے، ان کے احکام کی نافرمانی کریں گے اور ان کے مقابلے پر اتر آئیں گے انھیں دنیا میں ذلیل کیا جائے گا، جس طرح ان قوموں کو ذلیل کیا گیا جنھوں نے ان سے پہلے اللہ اور اس کے رسولوں کی مخالفت کی اور یہ احکام اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور ان کا انکار کرنے والوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
➋ { ” كُبِتُوْا “} ماضی مجہول کا صیغہ ہے، لفظی معنی ہے ”ذلیل کیے گئے۔“ مراد یہ ہے کہ ”ذلیل کیے جائیں گے۔“ آئندہ ہونے والی بات کو ماضی کے صیغے کے ساتھ اس لیے فرمایا کہ اس کا ہونا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو یہ کام ہو ہی چکا ہے۔ اس میں کفار کے لیے وعید اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بدر اور دوسرے معرکوں میں کفار اور ان کے مددگار یہود و منافقین بری طرح ذلیل ہوئے، انھیں شکستوں پر شکستیں ہوئیں اورانھیں قتل، قید، مال و اولاد سے محرومی، غلامی اور جلا وطنی کی ذلتیں اٹھانا پڑیں، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مکہ فتح ہو گیا۔ پھر پورے جزیرۂ عرب پر اسلام کے مکمل غلبے کے ساتھ کفار و منافقین پر ذلت و رسوائی کی مہر ثبت ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء کے ہاتھوں مشرق سے مغرب تک اسلام غالب ہوا اور کفار و منافقین ذلیل و رسوا ہوئے۔
➋ { ” كُبِتُوْا “} ماضی مجہول کا صیغہ ہے، لفظی معنی ہے ”ذلیل کیے گئے۔“ مراد یہ ہے کہ ”ذلیل کیے جائیں گے۔“ آئندہ ہونے والی بات کو ماضی کے صیغے کے ساتھ اس لیے فرمایا کہ اس کا ہونا اتنا یقینی ہے کہ سمجھو یہ کام ہو ہی چکا ہے۔ اس میں کفار کے لیے وعید اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بدر اور دوسرے معرکوں میں کفار اور ان کے مددگار یہود و منافقین بری طرح ذلیل ہوئے، انھیں شکستوں پر شکستیں ہوئیں اورانھیں قتل، قید، مال و اولاد سے محرومی، غلامی اور جلا وطنی کی ذلتیں اٹھانا پڑیں، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مکہ فتح ہو گیا۔ پھر پورے جزیرۂ عرب پر اسلام کے مکمل غلبے کے ساتھ کفار و منافقین پر ذلت و رسوائی کی مہر ثبت ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء کے ہاتھوں مشرق سے مغرب تک اسلام غالب ہوا اور کفار و منافقین ذلیل و رسوا ہوئے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
5۔ 1 کتبوا، ماضی مجہول کا صیغہ ہے مستقبل میں ہونے والے واقعے کو ماضی سے تعبیر کر کے واضح کردیا کہ اس کا وقوع اور تحقق اسی طرح یقینی ہے جیسے کہ وہ ہوچکا ہے چناچہ ایسا ہی ہوا کہ یہ مشرکین مکہ بدر والے دن ذلیل کیے گئے کچھ مارے گئے کچھ قیدی ہوگئے اور مسلمان ان پر غالب رہے مسلمانوں کا غلبہ بھی ان کے حق میں نہایت ذلت تھا۔ 5۔ 2 اس سے مراد گزشتہ امتیں ہیں جو اسی مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوئیں
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
احکامات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم ٭٭
فرمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والے اور احکام شرعی سے سرتابی کرنے والے ذلت ادبار نحوست اور پھٹکار کے لائق ہیں جس طرح ان سے اگلے انہی اعمال کے باعث برباد اور رسوا کر دیئے گئے، اسی طرح یہ بھی اس سرکشی کے باعث برباد اور رسوا کر دئیے گئے، اسی طرح واضح، اس قدر ظاہر، اتنی صاف اور ایسی کھلی ہوئی آیتیں بیان کر دی ہیں اور نشانیاں ظاہر کر دی ہیں کہ سوائے اس کے جس کے دل میں سرکشی ہو کوئی ان سے انکار کر نہیں سکتا اور جو ان کا انکار کرے وہ کافر ہے اور ایسے کفار کیلئے یہاں کی ذلت کے بعد وہاں کے بھی اہانت والے عذاب ہیں، یہاں ان کے تکبر نے اللہ کی طرف جھکنے سے روکا وہاں اس کے بدلے انہیں بے انتہا ذلیل کیا جائے گا، خوب روندا جائے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا اور جو بھلائی برائی جس کسی نے کی تھی اس سے اسے آگاہ کرے گا۔ گو یہ بھول گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اسے یاد رکھا تھا اس کے فرشتوں نے اسے لکھ رکھا تھا۔ نہ تو اللہ پر کوئی چیز چھپ سکے نہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو بھولے۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ تم جہاں ہو جس حالت میں ہو نہ تمہاری باتیں اللہ کے سننے سے رہ سکیں نہ تمہاری حالتیں اللہ کے دیکھنے سے پوشیدہ رہیں اس کے علم نے ساری دنیا کا احاطہ کر رکھا ہے اسے ہر زبان و مکان کی اطلاع ہر وقت ہے، وہ زمین و آسمان کی تمام تر کائنات سے باعلم ہے۔
تین شخص آپس میں مل کر نہایت پوشیدگی، رازداری کے ساتھ اپنی باتیں ظاہر کریں انہیں وہ سنتا ہے اور وہ اپنے آپ کو تین ہی نہ سمجھیں بلکہ اپنا چوتھا اللہ کو گنیں اور جو پانچ شخص تنہائی میں رازداریاں کر رہے ہیں وہ چھٹا اللہ کو جانیں پھر جو اس سے کم ہوں یا اس سے زیادہ ہوں، وہ بھی یقین رکھیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہیں ان کے ساتھ ان کا اللہ ہے یعنی ان کے حال و قال سے مطلع ہے ان کے کلام کو سن رہا ہے اور ان کی حالتوں کو دیکھ رہا ہے پھر ساتھ ہی ساتھ اس کے فرشتے بھی لکھتے جا رہے ہیں۔ جیسے اور جگہ ہے «اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ» [9-التوبہ:78] ’ کیا لوگ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ باتوں کو اور ان کی سرگوشیوں کو بخوبی جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمام غیبوں پر اطلاع رکھنے والا ہے ‘،
اور جگہ ارشاد ہے «اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ» [43-الزخرف:80] ’ کیا ان کا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور خفیہ مشوروں کو سن نہیں رہے؟ برابر سن رہے ہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس موجود ہیں جو لکھتے جا رہے ہیں ‘، اکثر بزرگوں نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد معیت علمی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر جگہ ہے، ہر تین کے مجمع میں چوتھا اس کا علم ہے تبارک و تعالیٰ۔
بیشک و شبہ اس بات پر ایمان کامل اور یقین راسخ رکھنا چاہیئے کہ یہاں مراد ذات سے ساتھ ہونا نہیں بلکہ علم سے ہر جگہ موجود ہونا ہے، ہاں بیشک اس کا سننا دیکھنا بھی اسی طرح اس کے علم کے ساتھ ساتھ ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی تمام مخلوق پر مطلع ہے ان کا کوئی کام اس سے پوشیدہ نہیں، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے تمام اعمال پر تنبیہ کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو شروع بھی اپنے علم کے بیان سے کیا تھا اور ختم بھی اللہ کے علم کے بیان پر کیا (مطلب یہ ہے کہ درمیان میں اللہ کا ساتھ ہونا جو بیان کیا تھا اس سے بھی ازروئے علم کے ساتھ ہونا ہے نہ کہ ازروئے ذات کے۔مترجم)
اور جگہ ارشاد ہے «اَمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ ۭ بَلٰى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُوْنَ» [43-الزخرف:80] ’ کیا ان کا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پوشیدہ باتوں اور خفیہ مشوروں کو سن نہیں رہے؟ برابر سن رہے ہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس موجود ہیں جو لکھتے جا رہے ہیں ‘، اکثر بزرگوں نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس آیت سے مراد معیت علمی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا وجود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر جگہ ہے، ہر تین کے مجمع میں چوتھا اس کا علم ہے تبارک و تعالیٰ۔
بیشک و شبہ اس بات پر ایمان کامل اور یقین راسخ رکھنا چاہیئے کہ یہاں مراد ذات سے ساتھ ہونا نہیں بلکہ علم سے ہر جگہ موجود ہونا ہے، ہاں بیشک اس کا سننا دیکھنا بھی اسی طرح اس کے علم کے ساتھ ساتھ ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی تمام مخلوق پر مطلع ہے ان کا کوئی کام اس سے پوشیدہ نہیں، پھر قیامت کے دن انہیں ان کے تمام اعمال پر تنبیہ کرے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو شروع بھی اپنے علم کے بیان سے کیا تھا اور ختم بھی اللہ کے علم کے بیان پر کیا (مطلب یہ ہے کہ درمیان میں اللہ کا ساتھ ہونا جو بیان کیا تھا اس سے بھی ازروئے علم کے ساتھ ہونا ہے نہ کہ ازروئے ذات کے۔مترجم)