وَ اصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ حِیۡنَ تَقُوۡمُ ﴿ۙ۴۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اپنے رب کا حکم آنے تک صبر کر، پس بے شک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح کر جب توکھڑا ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو۔ تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو اور جب اُٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیا کرو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تو اپنے رب کے حکم کے انتظار میں صبر سے کام لے، بیشک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ صبح کو جب تو اٹھے اپنے رب کی پاکی اور حمد بیان کر

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 48) ➊ {وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ:} یہاں لام {عَلٰي} کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ اپنے رب کے حکم پر عمل کرنے میں صبر و استقامت اختیار کرو اور دعوت کا کام جاری رکھو، جیسے فرمایا: «‏‏‏‏وَ اصْبِرْ عَلٰى مَا يَقُوْلُوْنَ» ‏‏‏‏ [المزمل: ۱۰] اور اس پر صبر کر جو وہ کہتے ہیں۔ اور اگر {إِلٰي} کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک صبر کرو، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏وَ اصْبِرْ حَتّٰى يَحْكُمَ اللّٰهُ» [یونس: ۱۰۹] اور صبر کر یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے۔ اس مقام پر حرف لام لانے سے ایسا جامع مفہوم پیدا ہو رہا ہے جو کوئی اور حرف لانے سے پیدا نہیں ہوتا۔ {وَاصْبِرْ لِحُكْمِنَا } (اور ہمارے حکم پر صبر کر) کے بجائے فرمایا: «وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ» ‏‏‏‏ (اور اپنے رب کے حکم پر صبر کر) مطلب یہ ہے کہ اس کے رب ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ تیری نگہداشت اور حفاظت کرے۔
➋ { فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا:} کیونکہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، ہم ہر وقت تجھے دیکھ رہے ہیں اور تیری نگرانی اور حفاظت کر رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ تجھے نقصان پہنچا سکے۔ مزید دیکھیے سورۂ ہود (۳۷)۔
➌ { وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ:} صبر کے ساتھ تسبیح و تحمید یعنی نماز کی تاکید فرمائی، کیونکہ ان دونوں کے ساتھ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ» [البقرۃ: ۴۵] اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔
➍ { سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ } کا لفظی معنی اگرچہ یہ ہے کہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر مگر اس سے مراد نماز ہے۔ دلیل اور تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۳۰) کی تفسیر۔
➎ {حِيْنَ تَقُوْمُ:} اکثر مفسرین نے { سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ } سے سبحان الله اور الحمد لله کہنا مراد لیا ہے اور { حِيْنَ تَقُوْمُ } سے مراد بعض نے یہ لیا ہے کہ نیند کے بعد بستر سے اٹھتے وقت {سُبْحَانَ اللّٰهِ،اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ } کہو۔ بعض نے اس سے مجلس سے اٹھتے وقت کفارۂ مجلس کی دعا { سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَ أَتُوْبُ إِلَيْكَ } مراد لی ہے اور بعض نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز شروع کرتے وقت {سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ } (دعائے استفتاح) ہے۔ بعض نے کہا کہ ہر خطاب کے لیے کھڑے ہوتے وقت تسبیح و تحمید کرنا مراد ہے۔ مگر انھی مفسرین نے اگلی آیت { وَ مِنَ الَّيْلِ فَسَبِّحْهُ } میں تسبیح سے مراد نمازِ تہجد اور { وَ اِدْبَارَ النُّجُوْمِ } سے مراد نمازِ فجر لی ہے۔ حق یہ ہے کہ {سَبَّحَ} کا جو معنی { مِنَ الَّيْلِ } اور { اِدْبَارَ النُّجُوْمِ } کے ساتھ کیا گیا ہے وہی معنی { حِيْنَ تَقُوْمُ } کے ساتھ ہونا چاہیے۔ طبری نے یہاں پہلے دو قول ذکر فرمائے ہیں، ایک یہ کہ نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید کرے، دوسرا یہ کہ جب فرض نماز کے لیے کھڑا ہو تو {سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِك} دعا پڑھے۔ پھر فرمایا: صواب کے سب سے زیادہ قریب ان کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ { سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ } کا معنی ہے {صَلِّ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ مِنْ مَنَامِكَ وَ ذٰلِكَ نَوْمُ الْقَائِلَةِ، وَ إِنَّمَا عَنٰي صَلَاةَ الظُّهْرِ} یعنی اپنے رب کی حمد کے ساتھ نماز پڑھ جب تو اپنی نیند سے اٹھے۔ نیند سے مراد دوپہر کی نیند ہے اور نماز سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ فرماتے ہیں: ہم نے اس قول کو اس لیے ترجیح دی ہے کہ نماز شروع کرتے وقت {سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ} پڑھنا کسی کے نزدیک بھی فرض نہیں اور ہم نے دوپہر کی نیند سے اٹھنا اس لیے مراد لیا ہے کہ لوگوں کا معروف نیند سے اٹھنا یا تو رات کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نمازِ فجر کا وقت ہے یا دوپہر کی نیند کے بعد ہوتا ہے اور وہ نمازِ ظہر کا وقت ہے۔ تو جب { سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِيْنَ تَقُوْمُ } کے بعد { اِدْبَارَ النُّجُوْمِ } کے وقت تسبیح کا حکم دیا جو رات کی نیند سے اٹھ کر نمازِ فجر کی دو رکعتیں ہیں، تو معلوم ہوا کہ { حِيْنَ تَقُوْمُ } سے مراد وہ نماز ہے جو رات کی نیند سے اٹھنے کے علاوہ ہے اور وہ نمازِ ظہر ہے۔ (طبری) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے کہ { حِيْنَ تَقُوْمُ } سے مراد نیند سے اٹھ کر تسبیح و تحمید ہے، لیکن اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ طبری کی ترجیح یہ نہیں ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

48۔ 1 اس کھڑے ہونے سے کونسا کھڑا ہونا مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں جب نماز کے لئے کھڑے ہوں جیسے آغاز نماز میں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ پڑھی جاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب کسی مجلس میں کھڑے ہوں جیسے حدیث میں آتا ہے جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو یہ اسکی مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت أستغفرک واتوب الیک۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

حمد باری کا حکم ٭٭
پھر فرماتا ہے کہ اے نبی! آپ صبر کیجئے ان کی ایذاء دہی سے تنگ دل نہ ہو جائیے، ان کی طرف سے کوئی خطرہ بھی دل میں نہ لائیے، سنئیے آپ ہماری حفاظت میں ہیں، آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں، آپ کی نگہبانی کے ذمہ دار ہم ہیں، تمام دشمنوں سے آپ کو بچانا ہمارے سپرد ہے، پھر حکم دیتا ہے کہ جب آپ کھڑے ہوں تو اللہ کی پاکی اور تعریف بیان کیجئے اس کا ایک مطلب یہ کیا گیا ہے کہ جب رات کو جاگیں۔ دونوں مطلب درست ہیں
چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ { نماز کو شروع کرتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے «سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ» یعنی اے اللہ تو پاک ہے تمام تعریفوں کا مستحق ہے تیرا نام برکتوں والا ہے تیری بزرگی بہت بلند و بالا ہے، تیرے سوا معبود برحق کوئی اور نہیں }۔
مسند احمد اور سنن میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا مروی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رات کو جاگے اور کہے «لا إله إلا الله وحده لا شريك له،‏‏‏‏ له الملك،‏‏‏‏ وله الحمد،‏‏‏‏ وهو على كل شىء قدير‏.‏ الحمد لله،‏‏‏‏ وسبحان الله،‏‏‏‏ ولا إله إلا الله،‏‏‏‏ والله أكبر،‏‏‏‏ ولا حول ولا قوة إلا بالله‏» پھر خواہ اپنے لیے بخشش کی دعا کرے خواہ جو چاہے طلب کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے پھر اگر اس نے پختہ ارادہ کیا اور وضو کر کے نماز بھی ادا کی تو وہ نماز قبول کی جاتی ہے۔ یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے[صحیح بخاری:1154]‏‏‏‏
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ کی تسبیح اور حمد کے بیان کرنے کا حکم ہر مجلس سے کھڑے ہونے کے وقت ہے۔ ابوالاحوص رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کہ جب مجلس سے اٹھنا چاہے یہ پڑھے «سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ» عطا بن ابورباح رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اس مجلس میں نیکی ہوئی ہے تو وہ اور بڑھ جاتی ہے اور اگر کچھ اور ہوا ہے تو یہ کلمہ اس کا کفارہ ہو جاتا ہے۔
جامع عبدالرزاق میں ہے کہ { جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی کہ جب کبھی کسی مجلس سے کھڑے ہوں تو «سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وبَحَمْدكَ أشْهدُ أنْ لا إلهَ إلا أنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ» پڑھو۔ اس کے راوی معمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے یہ بھی سنا ہے کہ یہ قول اس مجلس کا کفارہ ہو جاتا ہے }۔ [عبدالرزاق:19796مرسل]‏‏‏‏ یہ حدیث تو مرسل ہے لیکن مسند حدیثیں بھی اس بارے میں بہت سی مروی ہیں جن کی سندیں ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں۔
ایک حدیث میں ہے { جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے وہاں کچھ بک جھک ہو اور کھڑا ہونے سے پہلے ان کلمات کو کہہ لے تو اس مجلس میں جو کچھ ہوا ہے اس کا کفارہ ہو جاتا ہے }۔ [سنن ترمذي:3433،قال الشيخ الألباني:حسن]‏‏‏‏ اس حدیث کو امام ترمذی حسن صحیح کہتے ہیں۔
امام حاکم اسے مستدرک میں روایت کر کے فرماتے ہیں اس کی سند شرط مسلم پر ہے، ہاں امام بخاری نے اس میں علت نکالی ہے، میں کہتا ہوں امام احمد، امام مسلم، امام ابوحاتم، امام ابوزرعہ، امام دارقطنی رحمہم اللہ وغیرہ نے بھی اسے معلول کہا ہے اور وہم کی نسبت ابن جریج کی طرف کی ہے مگر یہ روایت ابوداؤد میں جس سند سے مروی ہے اس میں ابن جریج رحمہ اللہ ہیں ہی نہیں، اور حدیث میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں جس مجلس سے کھڑے ہوتے ان کلمات کو کہتے بلکہ ایک شخص نے پوچھا بھی کہ یا رسول اللہ! آپ اس سے پہلے تو اسے نہیں کہتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجلس میں جو کچھ ہوا ہو یہ کلمات اس کا کفارہ ہو جاتے ہیں }، یہ روایت مرسل سند سے بھی ابوالعالیہ رحمہ اللہ سے مروی ہے «واللہ اعلم» نسائی وغیرہ۔[سنن ابوداود:4859،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ کلمات ایسے ہیں کہ جو انہیں مجلس سے اٹھتے وقت تین مرتبہ کہہ لے اس کے لیے یہ کفارہ ہو جاتے ہیں، مجلس خیر اور مجلس ذکر میں انہیں کہنے سے یہ مثل مہر کے ہو جاتے ہیں [ابوداؤد وغیرہ]‏‏‏‏ الحمداللہ میں نے ایک علیحدہ جزو میں ان تمام احادیث کو ان کے الفاظ کو اور ان کی سندوں کو جمع کر دیا ہے اور ان کی علتیں بھی بیان کر دی ہیں اور اس کے متعلق جو کچھ لکھنا تھا لکھ دیا ہے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ رات کے وقت اس کی یاد اور اس کی عبادت تلاوت اور نماز کے ساتھ کرتے رہو جیسے فرمان ہے «وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» [17-الإسراء:79]‏‏‏‏ رات کے وقت تہجد پڑھا کرو، یہ تیرے لیے نفل ہے، ممکن ہے تیرا رب تجھے مقام محمود پر اٹھائے۔ ستاروں کے ڈوبتے وقت سے مراد صبح کی فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں کہ وہ دونوں ستاروں کے غروب ہونے کے لیے جھک جانے کے وقت پڑھی جاتی ہیں چنانچہ ایک مرفوع حدیث میں ہے ان سنتوں کو نہ چھوڑو گو تمہیں گھوڑے کچل ڈالیں۔ [سنن ابوداود:1258،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏
اسی حدیث پر نظریں رکھ کر امام احمد رحمہ اللہ کے بعض اصحاب نے تو انہیں واجب کہا ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں، اس لیے کہ حدیث میں ہے دن رات میں پانچ نمازیں ہیں، سننے والے نے کہا: کیا مجھ پر اس کے سوا اور کچھ بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں مگر یہ کہ تو نفل ادا کرے۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:1891]‏‏‏‏
بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی نفل کی بہ نسبت صبح کی دو سنتوں کے زیادہ پابندی اور نگرانی نہ کرتے تھے۔ [صحیح بخاری:1169]‏‏‏‏
صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: صبح کے فرضوں سے پہلے یہ دو سنتیں ساری دنیا سے اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر ہیں[صحیح مسلم:96]‏‏‏‏
«الحمداللہ» سورۃ الطور کی تفسیر پوری ہوئی۔