(آیت 47) ➊ {وَاِنَّلِلَّذِيْنَظَلَمُوْاعَذَابًادُوْنَذٰلِكَ:} یعنی کفار کے لیے قیامت سے پہلے بھی ایک عذاب ہے۔ اس سے مراد دنیا میں آنے والے عذاب ہیں۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۱۲۶) اور سورۂ سجدہ (۲۱) کی تفسیر۔ ➋ { وَلٰكِنَّاَكْثَرَهُمْلَايَعْلَمُوْنَ:} یعنی دنیا میں ان پر مختلف مصیبتیں اور عذاب آتے ہیں، جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ پلٹ آئیں اور توبہ کر لیں، مگر ان میں سے زیادہ تر لوگ نہیں جانتے کہ ہم پر یہ مصیبتیں کیوں آئیں۔ اس لیے جیسے ہی گرفت ڈھیلی ہوتی ہے پہلے کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ نافرمان بن جاتے ہیں اور عذاب کو نہ عذاب سمجھتے ہیں نہ تنبیہ، بلکہ وہ عذاب کا کوئی سائنسی سبب اور نافرمانی پر جمے رہنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ بعض اہلِ علم نے یہاں {”دُوْنَذٰلِكَ“} (قیامت سے پہلے) کے الفاظ میں دنیا کے عذابوں کے علاوہ موت کے فرشتوں کی مار کو اور عذابِ قبر کو بھی شامل فرمایا ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
(1) یعنی دنیا میں، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْمِّنَالْعَذَابِالْاَدْنٰىدُوْنَالْعَذَابِالْاَكْبَرِلَعَلَّهُمْيَرْجِعُوْنَ) 32۔ السجدہ:21) 47۔ 2 اس بات سے کہ دنیا کے یہ عذاب اور مصائب، اس لئے ہیں تاکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کریں یہ نکتہ چونکہ نہیں سمجھتے اس لئے گناہوں سے تائب نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ گناہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس طرح ایک حدیث میں فرمایا کہ ' منافق جب بیمار ہو کر صحت مند ہوجاتا ہے تو اسکی مثال اونٹ کی سی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کیوں رسیوں سے باندھا گیا۔ اور کیوں کھلا چھوڑ دیا گیا؟ (ابوداؤد کتاب الجنائز نمبر 389)
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
ظالموں کا حال ٭٭
جیسے اور جگہ فرمان ہے «وَلَنُذِيقَنَّهُممِّنَالْعَذَابِالْأَدْنَىدُونَالْعَذَابِالْأَكْبَرِلَعَلَّهُمْيَرْجِعُونَ»[32-السجدة:21] یعنی ’ بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وه لوٹ آئیں ‘ لیکن ان میں سے اکثر بےعلم ہیں نہیں جانتے کہ یہ دنیوی مصیبتوں میں بھی مبتلا ہوں گے اور اللہ کی نافرمانیاں رنگ لائیں گی۔ یہی بےعلمی ہے جو انہیں اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ گناہ پر گناہ، ظلم پر ظلم کرتے جائیں۔ پکڑے جانے پر عبرت حاصل ہوتی ہے لیکن جیسے ہی پکڑ ہٹی یہ پھر ویسے کے ویسے، سخت دل بدکار بن گئے۔ بعض احادیث میں ہے کہ منافق کی مثال اونٹ کی سی ہے جس طرح اونٹ نہیں جانتا کہ اسے کیوں باندھا اور کیوں کھولا؟ [سنن ابوداود:3089،قال الشيخ الألباني:ضعیف] اسی طرح منافق بھی نہیں جانتا کہ کیوں بیمار کیا گیا؟ اور کیوں تندرست کر دیا گیا؟ اثر الٰہی میں ہے کہ میں کتنی ایک تیری نافرمانیاں کروں گا اور تو مجھے سزا نہ دے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندے کتنی مرتبہ میں نے تجھے عافیت دی اور تجھے علم بھی نہ ہوا۔