وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ اتَّبَعَتۡہُمۡ ذُرِّیَّتُہُمۡ بِاِیۡمَانٍ اَلۡحَقۡنَا بِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ مَاۤ اَلَتۡنٰہُمۡ مِّنۡ عَمَلِہِمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ کُلُّ امۡرِیًٔۢ بِمَا کَسَبَ رَہِیۡنٌ ﴿۲۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان سے ان کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے، ہر آدمی اس کے عوض جو اس نے کمایا گروی رکھا ہوا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی۔ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور ان کی اوﻻد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کی اوﻻد کو ان تک پہنچا دیں گے اور ان کے عمل سے ہم کچھ کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گروی ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 21) ➊ {وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ: ” بِاِيْمَانٍ “} پر تنوین تنکیر و تقلیل کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی“ کیا گیا ہے۔
➋ { اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ:} طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اس کی تفسیر نقل فرمائی ہے: [إِنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی يَرْفَعُ لِلْمُؤْمِنِ ذُرِّيَّتَهُ، وَإِنْ كَانُوْا دُوْنَهُ فِي الْعَمَلِ، لِيُقِرَّ اللّٰهُ بِهِمْ عَيْنَهُ] [طبري: ۳۲۶۲۲] ”اللہ تعالیٰ مومن کی خاطر اس کی اولاد کو اُونچا لے جائے گا، خواہ وہ عمل میں اس سے کم ہوں گے، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اس کی آنکھ ٹھنڈی کرے۔“ اس سے پہلے سورۂ رعد (۲۳) میں بیان فرمایا کہ اہلِ جنت کے آباء اور بیوی بچوں میں سے جو بھی صالح ہوں گے وہ ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے اور سورۂ مومن(۸) میں فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ سے ایمان والوں کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ وہ انھیں اور ان کے آباء، بیویوں اور اولادوں کو جنت میں داخل کر دے۔
زیرِ تفسیر آیت میں جنت کے داخلے کے ساتھ ایک اور بڑی خوش خبری دی ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجے کا ایمان لا کر اپنے صالح آباء کے نقشِ قدم پر چلتی رہی ہو تو خواہ وہ ایمان یا عمل کے لحاظ سے اس بلند درجے کے مستحق نہ بھی ہوئے جو ان کے آباء کو حاصل ہو گا، پھر بھی اللہ تعالیٰ انھیں ان کے آباء کے ساتھ ملا دے گا۔
➌ { وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ: ”أَلَتَ يَأْلِتُ أَلْتًا“ (ض) ” اَلشَّيْءُ “} کسی چیزکا کم ہونا۔ {”أَلَتَ الرَّجُلَ حَقَّهُ“} ”کسی آدمی کے حق میں کمی کرنا، پورا نہ دینا۔“ یعنی یہ نہیں ہو گا کہ ہم آباء کو ان کے اعلیٰ درجے سے نیچے لا کر ان کی اولاد کے ساتھ ملا دیں، کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے عمل کا اجر کم کر دیا جائے۔ اس لیے ہم ان کے عمل میں کسی طرح کمی نہیں کریں گے، بلکہ محض اپنے فضل سے اولاد کا درجہ بڑھا کر آباء کے اعلیٰ درجے میں پہنچا دیں گے۔
➍ جس طرح آباء کے عمل کی برکت سے اولاد کے درجات میں اضافہ ہو گا اسی طرح اولاد کی دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ آباء پر بھی فضل فرمائے گا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُوْلُ يَا رَبِّ! أَنّٰی لِيْ هٰذِهِ؟ فَيَقُوْلُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ] [مسند أحمد: 509/2، ح: ۱۰۶۱۰، مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو حسن اور ابن کثیر نے صحیح قرار دیا ہے] ”اللہ عز و جل جنت میں صالح بندے کا درجہ بلند فرمائے گا تو وہ کہے گا: ”اے میرے رب! مجھے یہ درجہ کیسے مل گیا؟“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”تیری اولاد کے تیرے لیے استغفار کی وجہ سے۔“ اس کی تائید اس مشہور حدیث سے ہوتی ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ] [مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ: ۱۶۳۱] ”جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل اس سے کٹ جاتا ہے، سوائے تین اعمال کے، صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا رہے یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔“
➎ {كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ: ”رَهَنَ يَرْهَنُ رَهْنًا“} (ف) گروی رکھنا۔ {” رَهِيْنٌ “} گروی رکھا ہوا۔ اگر کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی وصولی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن (گروی) رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کرے اس کی گروی رکھی ہوئی چیز چھوڑی نہیں جاتی اور اگر ادا کر ہی نہ سکے تو ضبط کر لی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا فضل بیان فرمایا کہ صالح اولاد کے اعمال ان کے آباء کے درجے کے لائق نہ بھی ہوئے تو انھیں ان کے آباء کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اب اپنے عدل کا بیان فرمایا کہ کسی شخص کو دوسرے کے گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا، بلکہ ہر آدمی اپنے کمائے ہوئے عمل کے بدلے ہی گرفتار ہو گا، خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا۔ پھر یا تو آدمی وہ عمل پیش کر کے چھوٹ جائے گا جس کی ادائیگی اس کے ذمے تھی یا پیش نہ کر سکنے کی وجہ سے گرفتار رہے گا۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۱۶۴)، فاطر (۱۸) اور سورۂ مدثر (۳۸)۔
➋ { اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ:} طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اس کی تفسیر نقل فرمائی ہے: [إِنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی يَرْفَعُ لِلْمُؤْمِنِ ذُرِّيَّتَهُ، وَإِنْ كَانُوْا دُوْنَهُ فِي الْعَمَلِ، لِيُقِرَّ اللّٰهُ بِهِمْ عَيْنَهُ] [طبري: ۳۲۶۲۲] ”اللہ تعالیٰ مومن کی خاطر اس کی اولاد کو اُونچا لے جائے گا، خواہ وہ عمل میں اس سے کم ہوں گے، تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اس کی آنکھ ٹھنڈی کرے۔“ اس سے پہلے سورۂ رعد (۲۳) میں بیان فرمایا کہ اہلِ جنت کے آباء اور بیوی بچوں میں سے جو بھی صالح ہوں گے وہ ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے اور سورۂ مومن(۸) میں فرمایا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ سے ایمان والوں کے حق میں دعا کرتے ہیں کہ وہ انھیں اور ان کے آباء، بیویوں اور اولادوں کو جنت میں داخل کر دے۔
زیرِ تفسیر آیت میں جنت کے داخلے کے ساتھ ایک اور بڑی خوش خبری دی ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجے کا ایمان لا کر اپنے صالح آباء کے نقشِ قدم پر چلتی رہی ہو تو خواہ وہ ایمان یا عمل کے لحاظ سے اس بلند درجے کے مستحق نہ بھی ہوئے جو ان کے آباء کو حاصل ہو گا، پھر بھی اللہ تعالیٰ انھیں ان کے آباء کے ساتھ ملا دے گا۔
➌ { وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ: ”أَلَتَ يَأْلِتُ أَلْتًا“ (ض) ” اَلشَّيْءُ “} کسی چیزکا کم ہونا۔ {”أَلَتَ الرَّجُلَ حَقَّهُ“} ”کسی آدمی کے حق میں کمی کرنا، پورا نہ دینا۔“ یعنی یہ نہیں ہو گا کہ ہم آباء کو ان کے اعلیٰ درجے سے نیچے لا کر ان کی اولاد کے ساتھ ملا دیں، کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ ان کے عمل کا اجر کم کر دیا جائے۔ اس لیے ہم ان کے عمل میں کسی طرح کمی نہیں کریں گے، بلکہ محض اپنے فضل سے اولاد کا درجہ بڑھا کر آباء کے اعلیٰ درجے میں پہنچا دیں گے۔
➍ جس طرح آباء کے عمل کی برکت سے اولاد کے درجات میں اضافہ ہو گا اسی طرح اولاد کی دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ آباء پر بھی فضل فرمائے گا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ، فَيَقُوْلُ يَا رَبِّ! أَنّٰی لِيْ هٰذِهِ؟ فَيَقُوْلُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ] [مسند أحمد: 509/2، ح: ۱۰۶۱۰، مسند احمد کے محققین نے اس کی سند کو حسن اور ابن کثیر نے صحیح قرار دیا ہے] ”اللہ عز و جل جنت میں صالح بندے کا درجہ بلند فرمائے گا تو وہ کہے گا: ”اے میرے رب! مجھے یہ درجہ کیسے مل گیا؟“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”تیری اولاد کے تیرے لیے استغفار کی وجہ سے۔“ اس کی تائید اس مشہور حدیث سے ہوتی ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ] [مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ: ۱۶۳۱] ”جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل اس سے کٹ جاتا ہے، سوائے تین اعمال کے، صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا رہے یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔“
➎ {كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ: ”رَهَنَ يَرْهَنُ رَهْنًا“} (ف) گروی رکھنا۔ {” رَهِيْنٌ “} گروی رکھا ہوا۔ اگر کوئی شخص کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی وصولی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن (گروی) رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کرے اس کی گروی رکھی ہوئی چیز چھوڑی نہیں جاتی اور اگر ادا کر ہی نہ سکے تو ضبط کر لی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنا فضل بیان فرمایا کہ صالح اولاد کے اعمال ان کے آباء کے درجے کے لائق نہ بھی ہوئے تو انھیں ان کے آباء کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ اب اپنے عدل کا بیان فرمایا کہ کسی شخص کو دوسرے کے گناہ میں نہیں پکڑا جائے گا، بلکہ ہر آدمی اپنے کمائے ہوئے عمل کے بدلے ہی گرفتار ہو گا، خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا۔ پھر یا تو آدمی وہ عمل پیش کر کے چھوٹ جائے گا جس کی ادائیگی اس کے ذمے تھی یا پیش نہ کر سکنے کی وجہ سے گرفتار رہے گا۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۱۶۴)، فاطر (۱۸) اور سورۂ مدثر (۳۸)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
21۔ 1 یعنی جن کے باپ اپنے اخلاص و تقوٰی اور عمل و کردار کی بنیاد پر جنت کے اعلٰی درجوں پر فائز ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی ایماندار اولاد کے بھی درجے بلند کرکے، ان کو ان کے باپوں کے ساتھ ملا دے گا یہ نہیں کرے گا کہ ان کے باپوں کے درجے کم کرکے ان کی اولاد والے کمتر درجوں میں انہیں لے آئے یعنی اہل ایمان پر دو گونہ احسان فرمائے گا۔ ایک تو باپ بیٹوں کو آپس میں ملا دے گا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، بشرطیکہ دونوں ایماندار ہوں دوسرا یہ کہ کم درجے والوں کو اٹھا کر اونچے درجوں پر فائز فرما دے گا۔ ورنہ دونوں کے ملاپ کا یہ طریقہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے کلاس والوں کو بی کلاس دے دے، یہ بات چونکہ اس کے فضل واحسان سے فروتر ہوگی اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ بی کلاس والوں کا اے کلاس عطا فرمائے گا۔ یہ تو اللہ کا وہ احسان ہے جو اولاد پر آبا کے عملوں کی برکت سے ہوگا اور حدیث میں آتا ہے کہ اولاد کی دعا واستغفار سے آبا کے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایک شخص کے جب جنت میں درجے بلند ہوتے ہیں تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے (مسند احمد) اس کی تأیید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ (صحیح مسلم) 21۔ 2 رھین بمعنی مرھون (گروی شدہ چیز) ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہوگا۔ یہ عام ہے۔ مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور مطلب ہے کہ جو جیسا اچھا یا برا عمل کرے گا۔ اس کے مطابق اچھی یا بری جزاء پائے گا۔ یا اس سے مراد صرف کافر ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوں گے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا " كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا كَسَبَتْ رَهِيْنَةٌ" 74۔ المدثر:38) ہر شخص اپنے اعمال میں گرفتار ہوگا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
صالح اولاد انمول اثاثہ ٭٭
اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم اپنے احسان اور انعام کا بیان فرماتا ہے کہ جن مومنوں کی اولاد بھی ایمان میں اپنے باپ دادا کی راہ میں لگ جائے لیکن اعمال صالحہ میں اپنے بڑوں سے کم ہو پروردگار ان کے نیک اعمال کا بدلہ بڑھا چڑھا کر انہیں ان کے بڑوں کے درجے میں پہنچا دے گا تاکہ بڑوں کی آنکھیں چھوٹوں کو اپنے پاس دیکھ کر ٹھنڈی رہیں اور چھوٹے بھی اپنے بڑوں کے پاس ہشاش بشاش رہیں۔ ان کے عملوں کی بڑھوتری ان کے بزرگوں کے اعمال کی کمی سے نہ کی جائے گی بلکہ محسن و مہربان اللہ انہیں اپنے معمور خزانوں میں سے عطا فرمائے گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر یہی فرماتے ہیں۔
ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تو اپنے لیے اور ان کے لیے نیک اعمال کئے تھے چنانچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، شعبی، سعید بن جبیر، ابراہیم، قتادہ، ابوصالح، ربیع بن انس، ضحاک بن زید رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔
مسند احمد میں ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دونوں جہنم میں ہیں“، پھر جب مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہو جاتا، مائی صاحبہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔
یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ ہو۔
مسند احمد میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے، وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا“ }۔ [مسند احمد:509/2:حسن] اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی۔
لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ { ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں، صدقہ جاریہ، علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے، نیک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعائے خیر کرتی رہے }۔ [صحیح مسلم:1631]
چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہو گا، باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہو گا۔
ایک مرفوع حدیث بھی اس مضمون کی مروی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ جب جنتی شخص جنت میں جائے گا اور اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو نہ پائے گا تو دریافت کرے گا کہ وہ کہاں ہیں جواب ملے گا کہ وہ تمہارے مرتبہ تک نہیں پہنچے یہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تو اپنے لیے اور ان کے لیے نیک اعمال کئے تھے چنانچہ حکم دیا جائے گا اور انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دیا جائے گا۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنتیوں کے بچوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کئے وہ تو ان کے ساتھ ملا دئیے جائیں گے لیکن ان کے جو چھوٹے بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے وہ بھی ان کے پاس پہنچا دئیے جائیں گے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، شعبی، سعید بن جبیر، ابراہیم، قتادہ، ابوصالح، ربیع بن انس، ضحاک بن زید رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔
مسند احمد میں ہے کہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دو بچوں کی نسبت دریافت کیا جو زمانہ جاہلیت میں مرے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دونوں جہنم میں ہیں“، پھر جب مائی صاحبہ کو غمگین دیکھا تو فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تمہارے دل میں ان کا بغض پیدا ہو جاتا، مائی صاحبہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرا بچہ جو آپ سے ہوا وہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جنت میں ہے مومن مع اپنی اولاد کے جنت میں ہیں۔“ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی۔
یہ تو ہوئی ماں باپ کے اعمال صالحہ کی وجہ سے اولاد کی بزرگی اب اولاد کی دعا خیر کی وجہ سے ماں باپ کی بزرگی ملاحظہ ہو۔
مسند احمد میں حدیث ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا درجہ جنت میں دفعۃً بڑھاتا ہے، وہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ میرا یہ درجہ کیسے بڑھ گیا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا اس بنا پر میں نے تیرا درجہ بڑھا دیا“ }۔ [مسند احمد:509/2:حسن] اس حدیث کی اسناد بالکل صحیح ہیں گو بخاری مسلم میں ان لفظوں سے نہیں آئی۔
لیکن اس جیسی ایک روایت صحیح مسلم میں اسی طرح مروی ہے کہ { ابن آدم کے مرتے ہی اس کے اعمال موقوف ہو جاتے ہیں لیکن تین عمل کہ وہ مرنے کے بعد بھی ثواب پہنچاتے رہتے ہیں، صدقہ جاریہ، علم دین جس سے نفع پہنچتا ہے، نیک اولاد جو مرنے والے کے لیے دعائے خیر کرتی رہے }۔ [صحیح مسلم:1631]
چونکہ یہاں بیان ہوا تھا کہ مومنوں کی اولاد کے درجے بےعمل بڑھا دئیے گئے تھے تو ساتھ ہی ساتھ اپنے اس فضل کے بعد اپنے عدل کا بیان فرماتا ہے کہ کسی کو کسی کے اعمال میں پکڑا نہ جائے گا بلکہ ہر شخص اپنے اپنے عمل میں رہن ہو گا، باپ کا بوجھ بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہ ہو گا۔
جیسے اور جگہ ہے «كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ» * «إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ» * «فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ» * «عَنِ الْمُجْرِمِينَ» [74-المدثر:41-38] ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے مگر وہ جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پہنچے وہ جنتوں میں بیٹھے ہوئے گنہگاروں سے دریافت کرتے ہیں۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں، جس چیز کو جی چاہے، جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہو جاتی ہے، شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں، جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بدزبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی، ہذیان نہیں بکتے، بیہوش نہیں ہوتے، سچا سرور اور پوری خوشی حاصل، بک جھک سے دور، گناہ سے غافل، باطل وکذب سے دور، غیبت و گناہ سے نفور، دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہو گی کہ ان کے سر میں چکر، پیٹ میں درد، عقل زائل، بکواس بہت، بو بری، چہرے بے رونق، اسی طرح شراب کے بدذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے «بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ» * «لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ» [37-الصافات:46،47] یہ رنگ میں سفید، پینے میں خوش ذائقہ، نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں، نہ بک جھک ہو، نہ بہکیں، نہ بھٹکیں، نہ مستی ہو، نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے، ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان جنتیوں کو قسم قسم کے میوے اور طرح طرح کے گوشت دئیے جاتے ہیں، جس چیز کو جی چاہے، جس پر دل آئے وہ یک لخت موجود ہو جاتی ہے، شراب طہور کے چھلکتے ہوئے جام ایک دوسرے کو پلا رہے ہیں، جس کے پینے سے سرور اور کیف لطف اور بہار حاصل ہوتا ہے لیکن بدزبانی بےہودہ گوئی نہیں ہوتی، ہذیان نہیں بکتے، بیہوش نہیں ہوتے، سچا سرور اور پوری خوشی حاصل، بک جھک سے دور، گناہ سے غافل، باطل وکذب سے دور، غیبت و گناہ سے نفور، دنیا میں شرابیوں کی حالت دیکھی ہو گی کہ ان کے سر میں چکر، پیٹ میں درد، عقل زائل، بکواس بہت، بو بری، چہرے بے رونق، اسی طرح شراب کے بدذائقہ اور بدبو یہاں جنت کی شراب ان تمام گندگیوں سے کوسوں دور ہے «بَيْضَاءَ لَذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ» * «لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ» [37-الصافات:46،47] یہ رنگ میں سفید، پینے میں خوش ذائقہ، نہ اس کے پینے سے حواس معطل ہوں، نہ بک جھک ہو، نہ بہکیں، نہ بھٹکیں، نہ مستی ہو، نہ اور کسی طرح ضرر پہنچائے، ہنسی خوشی اس پاک شراب کے جام پلا رہے ہوں گے۔