وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اگر وہ صبر کرتے، یہاں تک کہ تو ان کی طرف نکلتا تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا، اور اللہ غفور ورحیم ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 5) ➊ { وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ …:} یعنی اگر وہ آوازیں دینے کے بجائے صبر کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے کا انتظار کرتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا، کیونکہ اس صبر و انتظار میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب ملحوظ رکھنے میں انھیں اجر و ثواب ملتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ خوش دلی کے ساتھ ان سے ملتے اور زیادہ بہتر طریقے سے ان کی ضرورتیں پوری فرماتے۔ ظاہر ہے جس شخص پر پوری امت کی ذمہ داری کا بوجھ ہے اور وہ ہر وقت اسی فکر و عمل میں مصروف ہے، اگر اس وقت جب وہ گھر میں ہے یہ خیال کیے بغیر کہ اس وقت وہ آرام کر رہا ہے یا گھر کے کسی کام میں مصروف ہے، آوازیں دینا شروع کر دیا جائے تو اس خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی جو صبر و انتظار کے ساتھ اس سے حاصل ہونا تھی۔ اس سے اساتذہ کرام، اہلِ علم اور مسلمانوں کے امراء و اکابر کے اکرام کی بھی تعلیم ملتی ہے۔
➋ { وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ:} یعنی حق تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو ان کی اس بے ادبی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی سزا ملتی، مگر چونکہ ان سے یہ فعل بے عقلی کی وجہ سے سرزد ہوا تھا، بدنیتی کی وجہ سے نہیں، اس لیے آخر میں اپنے غفور و رحیم ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی مغفرت کا اشارہ فرما دیا۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زندہ تھے اور دیوار کے باہر سے آپ تک آواز بھی پہنچتی تھی اس وقت آپ کو آواز دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بے عقل قرار دیا تو اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے اور یہ ممکن ہی نہ رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بات سنیں یا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں، جیسا کہ فرمایا: «وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ» [المؤمنون: ۱۰۰] ”اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔ “ تو جو لوگ اب ہزاروں میل دور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں دیتے ہیں اور آوازیں بھی اس مقصد کے لیے دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پورا نہیں کر سکتا، تو ان کے {” لَا يَعْقِلُوْنَ “} (بے عقل) ہونے میں کیا شبہ ہے۔
➋ { وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ:} یعنی حق تو یہ تھا کہ ان لوگوں کو ان کی اس بے ادبی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی سزا ملتی، مگر چونکہ ان سے یہ فعل بے عقلی کی وجہ سے سرزد ہوا تھا، بدنیتی کی وجہ سے نہیں، اس لیے آخر میں اپنے غفور و رحیم ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی مغفرت کا اشارہ فرما دیا۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زندہ تھے اور دیوار کے باہر سے آپ تک آواز بھی پہنچتی تھی اس وقت آپ کو آواز دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بے عقل قرار دیا تو اب جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے اور یہ ممکن ہی نہ رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری بات سنیں یا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں، جیسا کہ فرمایا: «وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ» [المؤمنون: ۱۰۰] ”اور ان کے پیچھے اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے، ایک پردہ ہے۔ “ تو جو لوگ اب ہزاروں میل دور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آوازیں دیتے ہیں اور آوازیں بھی اس مقصد کے لیے دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پورا نہیں کر سکتا، تو ان کے {” لَا يَعْقِلُوْنَ “} (بے عقل) ہونے میں کیا شبہ ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
5۔ 1 یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے کا انتظار کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دینے میں جلدی نہ کرتے تو دین اور دنیا دونوں لحاظ سے بہتر ہوتا۔ 5۔ 2 اس لیے مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ کے لیے ادب و تعظیم کی تاکید بیان فرما دی۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
آداب خطاب ٭٭
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت بیان کرتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانوں کے پیچھے سے آپ کو آوازیں دیتے اور پکارتے ہیں۔ جس طرح اعراب میں دستور تھا تو فرمایا کہ ’ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں ‘۔
پھر اس کی بابت ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ چاہیئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ مکان سے باہر نکلتے تو آپ سے جو کہنا ہوتا کہتے ‘، نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے۔ دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی۔
پھر اس کی بابت ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ چاہیئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ مکان سے باہر نکلتے تو آپ سے جو کہنا ہوتا کہتے ‘، نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے۔ دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی۔
پھر حکم دیتا ہے کہ ’ ایسے لوگوں کو توبہ استغفار کرنا چاہیئے کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ‘۔ یہ آیت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، آپ کا نام لے کر پکارا ”یا محمد! یا محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، تو اس نے کہا: سنئے، یا رسول اللہ! میرا تعریف کرنا بڑائی کا سبب ہے اور میرا مذمت کرنا ذلت کا سبب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی ذات محض اللہ تعالیٰ کی ہی ہے“ }۔ ۱؎ [مسند احمد:488/3:صحیح لغیرہ]
بشر بن غالب نے حجاج کے سامنے بشر بن عطارد وغیرہ سے کہا کہ تیری قوم بنو تمیم کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ جب سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ عالم ہوتے تو اس کے بعد کی آیت «يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم بَلِ اللَّـهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ» ۱؎ [49-الحجرات:17] پڑھ دیتے یعنی ’ اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ‘ اور بنو اسد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرنے میں کچھ دیر نہیں کی۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { کچھ عرب جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اس شخص کے پاس لے چلو اگر وہ سچا نبی ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے مستحق ہم ہیں اور اگر وہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر آپ کو پکارنے لگے، اس پر یہ آیت اتری، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی“ }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:382/11:حسن]
مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، آپ کا نام لے کر پکارا ”یا محمد! یا محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، تو اس نے کہا: سنئے، یا رسول اللہ! میرا تعریف کرنا بڑائی کا سبب ہے اور میرا مذمت کرنا ذلت کا سبب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی ذات محض اللہ تعالیٰ کی ہی ہے“ }۔ ۱؎ [مسند احمد:488/3:صحیح لغیرہ]
بشر بن غالب نے حجاج کے سامنے بشر بن عطارد وغیرہ سے کہا کہ تیری قوم بنو تمیم کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ جب سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ عالم ہوتے تو اس کے بعد کی آیت «يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم بَلِ اللَّـهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ» ۱؎ [49-الحجرات:17] پڑھ دیتے یعنی ’ اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ‘ اور بنو اسد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرنے میں کچھ دیر نہیں کی۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { کچھ عرب جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اس شخص کے پاس لے چلو اگر وہ سچا نبی ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے مستحق ہم ہیں اور اگر وہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر آپ کو پکارنے لگے، اس پر یہ آیت اتری، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی“ }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:382/11:حسن]