وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ لَیَقُوۡلُنَّ خَلَقَہُنَّ الۡعَزِیۡزُ الۡعَلِیۡمُ ﴿ۙ۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بلا شبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقینا ضرور کہیں گے کہ انھیں سب پر غالب، سب کچھ جاننے والے نے پیدا کیا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ ان کو غالب اور علم والے (خدا) نے پیدا کیا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا (اللہ) نے ہی پیدا کیا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 9) ➊ { وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ:} یہاں سے کفار کے قول و فعل کا تضاد واضح کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کرتے ہیں اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہو کر پیش ہونے کو ناممکن قرار دیتے ہیں، حالانکہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ یقینا کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ تو پھر یہ کیا ستم ہے کہ یہ لوگ اس ذات کے ساتھ جس نے آسمان و زمین اور پوری کائنات کو پیدا کیا، ایسی ہستیوں کو شریک کر رہے ہیں جنھوں نے ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ پھر ظاہر ہے کہ یہ بات کہ آسمانوں اور زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، پہلے رسولوں کے بتانے ہی سے لوگوں کو معلوم ہوئی۔ اہل عرب کو بھی اس بات کا علم ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کے بتانے سے ہوا، کیونکہ عوام الناس اتنی اہلیت ہی نہیں رکھتے کہ کائنات کی حقیقتیں خود معلوم کر سکیں۔ تو جب یہ پہلے رسولوں کو مانتے ہیں تو انھی کی تعلیم لے کر آنے والے اس پیغمبر پر کیوں ایمان نہیں لاتے؟ ایک طرف تو یہ اللہ تعالیٰ کو اس وقت آسمان و زمین پیدا کرنے پر قادر مانتے ہیں جب ان کا وجود ہی نہیں تھا تو دوسری طرف اسے اتنا بے بس قرار دیتے ہیں کہ وہ اس چیز کو دوبارہ نہیں بنا سکتا جو اس نے پہلے بنائی تھی۔
➋ { لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ:} مشرکینِ عرب کی طرف سے اس سوال کا جواب کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا یہی تھا کہ انھیں ” اللہ“نے پیدا کیا ہے، جیسا کہ سورۂ لقمان (۲۵) اور سورۂ زمر (۳۸) میں فرمایا: «وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ» ”اور بلاشبہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔“ یہاں اسی بات کو ان الفاظ میں ادا فرمایا کہ وہ کہیں گے کہ انھیں اسی عزیز و علیم نے پیدا کیا ہے۔ کیونکہ ان کے اس اعتراف کا کہ ”انھیں اللہ نے پیدا کیا“ لازمی تقاضا ہے کہ وہ یہ اعتراف بھی کریں کہ وہ عزیز و علیم ہے، کیونکہ کامل غلبے اور کمال علم کے بغیر آسمان و زمین کا پیدا کرنا ممکن نہیں۔
➋ { لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ:} مشرکینِ عرب کی طرف سے اس سوال کا جواب کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا یہی تھا کہ انھیں ” اللہ“نے پیدا کیا ہے، جیسا کہ سورۂ لقمان (۲۵) اور سورۂ زمر (۳۸) میں فرمایا: «وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ» ”اور بلاشبہ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔“ یہاں اسی بات کو ان الفاظ میں ادا فرمایا کہ وہ کہیں گے کہ انھیں اسی عزیز و علیم نے پیدا کیا ہے۔ کیونکہ ان کے اس اعتراف کا کہ ”انھیں اللہ نے پیدا کیا“ لازمی تقاضا ہے کہ وہ یہ اعتراف بھی کریں کہ وہ عزیز و علیم ہے، کیونکہ کامل غلبے اور کمال علم کے بغیر آسمان و زمین کا پیدا کرنا ممکن نہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اصلی زاد راہ تقویٰ ہے ٭٭
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم ان مشرکین سے دریافت کرو تو یہ اس بات کا اقرار کریں گے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے پھر یہی اس کی وحدانیت کو جان کر اور مان کر عبادت میں دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہیں جس نے زمین کو فرش اور ٹھہری ہوئی قرار گاہ اور ثابت و مضبوط بنایا جس پر تم چلو، پھرو، رہو، سہو، اٹھو، بیٹھو، سوؤ، جاگو۔ ‘
’ حالانکہ یہ زمین خود پانی پر ہے لیکن مضبوط پہاڑوں کے ساتھ اسے ہلنے جلنے سے روک دیا ہے اور اس میں راستے بنا دئیے ہیں تاکہ تم ایک شہر سے دوسرے شہر کو ایک ملک سے دوسرے ملک کو پہنچ سکو۔ ‘
’ حالانکہ یہ زمین خود پانی پر ہے لیکن مضبوط پہاڑوں کے ساتھ اسے ہلنے جلنے سے روک دیا ہے اور اس میں راستے بنا دئیے ہیں تاکہ تم ایک شہر سے دوسرے شہر کو ایک ملک سے دوسرے ملک کو پہنچ سکو۔ ‘