وَ مَنۡ یَّعۡشُ عَنۡ ذِکۡرِ الرَّحۡمٰنِ نُقَیِّضۡ لَہٗ شَیۡطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیۡنٌ ﴿۳۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرکے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور جو شخص رحمٰن کی یاد سے غفلت کرے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 36) ➊ {وَ مَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ:} زمخشری نے فرمایا، {عَشِيَ يَعْشٰي} (ع) جب نظر میں خرابی آ جائے اور {عَشَا يَعْشُوْ } (ن) جب اس شخص کی طرح دیکھے جس کی نظر خراب ہے، حالانکہ اس میں کوئی خرابی نہ ہو۔ دونوں میں وہی فرق ہے جو {عَمِيَ} (اندھا ہو گیا) اور {تَعَامٰي} (اندھا بن گیا) میں ہے۔ { ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ } کا معنی رحمان کی یاد بھی ہے، اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی اور یہ قرآن بھی۔ دنیا کی زیب و زینت میں ہمہ تن مشغول ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کے ذکر سے غافل ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے فرشتے اس سے نفرت کرتے ہیں اور شیطان اس سے چمٹ جاتے ہیں، جو اسے ہر برائی میں مبتلا کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ» ‏‏‏‏ [المنافقون: ۹] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ اور جو شخص خواہشِ نفس پر قابو رکھ کر دنیا کے فتنوں سے بچے اور اللہ کے ذکر پر دوام کرے تو شیطان اس سے دور ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ فرشتہ مقرر کر دیتے ہیں جو اس کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر سے جان بوجھ کر غفلت کے لیے اندھا بننے کا لفظ استعمال فرمایا اور لفظ { الرَّحْمٰنِ } اس لیے ذکر فرمایا کہ انسان کے لائق نہیں کہ اس بے حد رحم والے کے ذکر سے غفلت کرے۔
➋ { نُقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌ:} اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حم السجدہ (۲۵)۔ { شَيْطٰنًا } نکرہ ہے، کوئی نہ کوئی شیطان، وہ انسانوں میں سے ہو یا ابلیس کی اولاد میں سے۔ شیطان مقرر کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی، حالانکہ یہ انسان کے اللہ کے ذکر سے غافل ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے، کیونکہ ہر کام کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ» [البقرۃ: ۲۱۰] اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

36۔ 1 عَشَا یَعْشُوْ کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہوجائے۔ 36۔ 2 وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

شیطان سے بچو ٭٭
ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جو شخص اللہ تعالیٰ رحیم و کریم کے ذکر سے غفلت و بے رغبتی کرے اس پر شیطان قابو پا لیتا ہے اور اس کا ساتھی بن جاتا ہے ‘۔
آنکھ کی بینائی کی کمی کو عربی زبان میں «عَشْیٌ فِیْ الْعَیْنِ» کہتے ہیں۔ یہی مضمون قرآن کریم کی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے جیسے فرمایا آیت «وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا» ‏‏‏‏ ۱؎ [4-النساء:115]‏‏‏‏، یعنی ’ جو شخص ہدایت ظاہر کر چکنے کے بعد مخالفت رسول کر کے مومنوں کی راہ کے سوا دوسری راہ کی پیروی کرے ہم اسے وہیں چھوڑیں گے اور جہنم واصل کریں گے جو بڑی بری جگہ ہے ‘۔
اور آیت میں ارشاد ہے «فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ» ۱؎ [61-الصف:5]‏‏‏‏ یعنی ’ جب وہی ٹیڑھے ہو گئے اللہ نے ان کے دل بھی کج کر دئیے ‘۔
اور آیت میں فرمایا «‏‏‏‏وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ» ۱؎ [41-فصلت:25]‏‏‏‏، یعنی ’ ان کے جو ہم نشین ہم نے مقرر کر دئیے ہیں وہ ان کے آگے پیچھے کی چیزوں کو زینت والی بنا کر انہیں دکھاتے ہیں ‘، یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ’ ایسے غافل لوگوں پر شیطان اپنا قابو کر لیتا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتا ہے اور ان کے دل میں یہ خیال جما دیتا ہے کہ ان کی روش بہت اچھی ہے یہ بالکل صحیح دین پر قائم ہیں قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور معاملہ کھل جائے گا تو اپنے اس شیطان سے جو ان کے ساتھ تھا برات ظاہر کرے گا اور کہے گا کاش کے میرے اور تمہارے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا جتنا مشرق اور مغرب میں ہے۔ ‘ یہاں بہ اعتبار غلبے کے مشرقین یعنی دو مشرقوں کا لفظ کہدیا گیا ہے جیسے سورج چاند کو «قمرین» یعنی دو چاند کہہ دیا جاتا ہے اور ماں باپ کو «ابوین» یعنی دو باپ کہہ دیا جاتا ہے۔
ایک قرأت میں «جَاۤءَ انَا» بھی ہے یعنی ’ شیطان اور یہ غافل انسان دونوں جب ہمارے پاس آئیں گے ‘۔ سعید جریری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافر کے اپنی قبر سے اٹھتے ہی شیطان آ کر اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملا لیتا ہے پھر جدا نہیں ہوتا یہاں تک کہ جہنم میں بھی دونوں کو ساتھ ہی ڈالا جاتا ہے۔‏‏‏‏
پھر فرماتا ہے کہ ’ جہنم میں تم سب کا جمع ہونا اور وہاں کے عذابوں میں سب کا شریک ہونا تمہارے لیے نفع دینے والا نہیں ‘، اس کے بعد اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ ازلی بہروں کے کان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کی آواز نہیں ڈال سکتے مادر زاد اندھوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم راہ نہیں دکھا سکتے صریح گمراہی میں پڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت قبول نہیں کر سکتے ‘۔
یعنی تجھ پر ہماری جانب سے یہ فرض نہیں کہ خواہ مخواہ ہر ہر شخص مسلمان ہو ہی جائے ہدایت تیرے قبضے کی چیز نہیں جو حق کی طرف کان ہی نہ لگائے جو سیدھی راہ کی طرف آنکھ ہی نہ اٹھائے جو بہکے اور اسی میں خوش رہو تجھے ان کی بابت کیوں اتنا خیال ہے؟ تجھ پر ضروری کام صرف تبلیغ کرنا ہے ہدایت و ضلالت ہمارے ہاتھ کی چیزیں ہیں عادل ہیں ہم حکیم ہیں ہم جو چاہیں گے کریں گے تم تنگ دل نہ ہو جایا کرو۔