بَلۡ مَتَّعۡتُ ہٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَہُمۡ حَتّٰی جَآءَہُمُ الۡحَقُّ وَ رَسُوۡلٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۲۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بلکہ میں نے انھیں اور ان کے باپ داداکو برتنے کا سامان دیا، یہاں تک کہ ان کے پاس حق آگیا اور وہ رسول جو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
بات یہ ہے کہ میں ان کفار کو اور ان کے باپ دادا کو متمتع کرتا رہا یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف صاف بیان کرنے والا پیغمبر آ پہنچا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بلکہ میں نے ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادوں کو سامان (اور اسباب) دیا، یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف صاف سنانے واﻻ رسول آگیا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 29) {بَلْ مَتَّعْتُ هٰۤؤُلَآءِ وَ اٰبَآءَهُمْ …:} یہ اس سوال کا جواب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں جو کلمہ اس لیے چھوڑا تھا کہ شرک میں گرفتار واپس پلٹ آئیں تو کیا وہ واپس پلٹے؟ فرمایا نہیں، وہ سب لوگ واپس نہیں پلٹے، بلکہ ان لوگوں یعنی قریش اور ان کے آباء کو ان کے کفر و شرک پر فوراً پکڑنے کے بجائے میں نے واپس پلٹنے کے لیے مہلت دی اور دنیا کا سازو سامان اور مال و متاع کچھ وقت تک رہنے اور فائدہ اٹھانے کے لیے دیا، مگر وہ ان دنیوی لذتوں ہی کو اپنا مقصد سمجھ بیٹھے اور ان میں ایسے بد مست ہوئے کہ ابراہیم علیہ السلام کی راہ کو بھول گئے، حتیٰ کہ ان کے پاس یہ حق اور رسول مبین آ گیا۔ { الْحَقُّ } سے مراد قرآن ہے اور { رَسُوْلٌ مُّبِيْنٌ } کا معنی کھول کر بیان کرنے والا رسول بھی ہے اور واضح رسول بھی، یعنی جس کا رسول برحق ہونا بالکل واضح ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

29۔ 1 یہاں سے پھر ان نعمتوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھیں اور نعمتوں کے بعد عذاب میں جلدی نہیں کی بلکہ انہیں پوری مہلت دی، جس سے وہ دھوکے میں مبتلا ہوگئے اور خواہش کے بندے بن گئے۔ 29۔ 2 حق سے قرآن اور رسول سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ مُبِیْن رسول کی صفت ہے، کھول کر بیان کرنے والا بیان کی رسالت واضح اور ظاہر ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔