ترجمہ و تفسیر — سورۃ الزخرف (43) — آیت 22
بَلۡ قَالُوۡۤا اِنَّا وَجَدۡنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤی اُمَّۃٍ وَّ اِنَّا عَلٰۤی اٰثٰرِہِمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿۲۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بلکہ انھوں نے کہا کہ بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور بے شک ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
بلکہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رستے پر پایا ہے اور ہم انہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
(نہیں نہیں) بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک مذہب پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل کر راه یافتہ ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 22) {بَلْ قَالُوْۤا اِنَّا وَجَدْنَاۤ اٰبَآءَنَا عَلٰۤى اُمَّةٍ …:} یعنی ایسا نہیں کہ ان کے پاس اپنی گمراہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی کسی کتاب کی کوئی دلیل یا سند موجود ہے، بلکہ ان کی دلیل اور سند یہی ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی راہ پر پایا ہے اور ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورۂ ذاریات (۵۲، ۵۳)۔ باطل اور ناحق باتوں (شرک و بدعت اور رسوم) میں بڑوں اور بزرگوں کی پیروی کو دلیل بنانا وہ گمراہی ہے جو قدیم زمانے سے چلی آئی ہے اور کفار کا شیوہ رہا ہے کہ وہ انبیاء کے مقابلے میں اس کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، قرآن نے متعدد آیات میں ان کی مذمت فرمائی ہے۔ معلوم ہوا کہ جس بات میں اللہ اور رسول کی کوئی سند نہ ہو اس میں باپ دادا یا کسی امام، مرشد یا بزرگ کی تقلید کرنا اور یہ کہنا کہ ہمارے بزرگ چونکہ ایسے ہی کرتے چلے آئے ہیں، لہٰذا ہم بھی اسی راہ پر چلیں گے، سراسر باطل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقلدین کی یہ تقلید صرف دین کے معاملے میں ہوتی ہے، اگر انھیں اپنے باپ دادا کے کسی دنیوی کاروبار میں روپے پیسے کا نقصان نظر آئے تو کبھی ان کی پیروی نہیں کریں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک دین اور آخرت کا خسارہ کچھ خسارہ ہی نہیں، ورنہ وہ کبھی ایسا نہ کریں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

باب
جو لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرتے ہیں ان کا بے دلیل ہونا بیان فرمایا جا رہا ہے کہ ’ کیا ہم نے ان کے اس شرک سے پہلے انہیں کوئی کتاب دے رکھی ہے؟ جس سے وہ سند لاتے ہوں۔ ‘ یعنی حقیقت میں ایسا نہیں جیسے فرمایا «‏‏‏‏اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ» ۱؎ [30-الروم:35]‏‏‏‏، یعنی ’ کیا ہم نے ان پر ایسی دلیل اتاری ہے جو ان سے شرک کو کہے؟ ‘ یعنی ایسا نہیں ہے۔
پھر فرماتا ہے ’ یہ تو نہیں، بلکہ شرک کی سند ان کے پاس ایک اور صرف ایک ہے اور وہ اپنے باپ دادوں کی تقلید کہ وہ جس دین پر تھے ہم اسی پر ہیں اور رہیں گے۔ ‘
امت سے مراد یہاں دین ہے اور آیت «‏‏‏‏إِنَّ هَـٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ» ۱؎ [21-الأنبياء:92]‏‏‏‏، میں بھی امت سے مراد دین ہی ہے ساتھ ہی کہا کہ ہم انہی کی راہوں پر چل رہے ہیں پس ان کے بے دلیل دعوے کو سنا کر اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ یہی روش ان سے اگلوں کی بھی رہی۔ ان کا جواب بھی نبیوں کی تعلیم کے مقابلہ میں یہی تقلید کو پیش کرنا تھا۔‘
اور جگہ ہے آیت «كَذٰلِكَ مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ» ۱؎ [51-الذاريات:52]‏‏‏‏ یعنی ’ ان سے اگلوں کے پاس بھی جو رسول آئے ان کی امتوں نے انہیں بھی جادوگر اور دیوانہ بتایا۔‘
پس گویا کہ اگلے پچھلوں کے منہ میں یہ الفاظ بھر گئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سرکشی میں یہ سب یکساں ہیں پھر ارشاد ہے کہ ’ گو یہ معلوم کر لیں اور جان لیں کہ نبیوں کی تعلیم باپ دادوں کی تقلید سے بدرجہا بہتر ہے تاہم ان کا برا قصد اور ضد اور ہٹ دھرمی انہیں حق کی قبولیت کی طرف نہیں آنے دیتی۔ ‘
پس ایسے اڑیل لوگوں سے ہم بھی ان کی باطل پرستی کا انتقام نہیں چھوڑتے مختلف صورتوں سے انہیں تہ و بالا کر دیا کرتے ہیں ان کا قصہ مذکور و مشہور ہے غور و تامل کے ساتھ دیکھ پڑھ لو اور سوچ سمجھ لو کہ کس طرح کفار برباد کئے جاتے ہیں اور کس طرح مومن نجات پاتے ہیں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل